قربانی اور اظہار بندگی

تحریر : ڈاکٹر محمد طاہر القادری


قربانی کا لفظ اپنے معنوی اطلاقات کے اعتبار سے وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ قربانی سے مراد ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو۔ اصطلاحاً ’’قربانی‘‘ کا لفظ عیدالاضحی کے ذبیحہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس دن قربِ الٰہی حاصل کرنے کیلئے جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قربانی سے مراد اپنی جان، مال، اولاد، عزت و آبرو، راحت و آرام سمیت ہر چیز کو اﷲ کی رضا کیلئے قربان کر دینا ہے ۔ سورئہ انعام کی آیت نمبر۲۶۱ میں ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

قربانی کا تاریخی پس منظر:کسی حلال جانور کو قرب الٰہی کے حصول کی نیت سے ذبح کرنے کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہے جب سے حضرت آدم ؑ اس دنیا میں تشریف لائے۔ سب سے پہلے قرآن حکیم میں حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کی طرف سے دی گئی قربانی کا ذکر کیا گیا۔ قربانی کی ابتداء تو حضرت آدم ؑ کے بیٹوں نے کی لیکن اس کو دائمی شہرت حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے واقعہ سے ملی۔ یہ قربانی ذبح عظیم کی آئینہ دار تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یاد کو قیامت تک زندہ رکھنے کیلیے ہر سال دس ذی الحج کو قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا رہے گا۔

مقاصدِ قربانی:ربانی محض ایک رسم کے طور پر جانور ذبح کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے درج ذیل مقاصد کا حصول مطلوب ہے:

قربانی ہی وہ سنت ابراہیمی ہے جسے اُمتِ محمدیہ میں ایک زندہ جاوید یاد کے طور پر دوام عطا کر دیا گیا ہے اور امت مسلمہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس کی روح کو تازہ کر تے ہوئے اس کا عملی مظاہرہ کرتی رہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے۔‘‘ (الحج،۲۲: ۴۳)

اللہ تعالیٰ نے سنتِ ابراہیمی کی تقلید کو عبادت کا درجہ دے دیا۔ حضرت زید بن ارقمؓ  روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا:’’ (قربانی کے جانور کے) ہر بال کے عوض ایک نیکی۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: اگر مینڈھا ہو تو؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ ’’نبی اکرمﷺ قربانی کاارادہ کرتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے کالے اور سیاہ رنگ دار ہوتے ایک اپنی امت کے ہر فرد کی جانب سے ذبح کرتے اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی جانب سے ذبح فرماتے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

حضرت حنشؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت علی ؓ کو دو دُنبے ذبح کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسولؐ اللہ نے مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی، چنانچہ (ارشادِ عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور نبی اکرمؐ کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خود اپنے لیے بھی قربانی کی، اپنے اہل بیت ؓ اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی کی۔ یہ عمل آپ ؐ کو سیدنا ابراہیم ؑ کی سنت کے احیاء اور یادگار کے طور پر اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اس لیے آپؐ نے حضرت علی ؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد میری طرف سے اور اپنی طرف سے قربانی دینا۔ اِس پر امیر المومنین سیدنا علیؓ ہمیشہ عمل پیرا رہے۔

سنتِ ابراہیمی کی تقلید کرنے سے نہ صرف اُن کے اعمال کی یاد زندہ رہتی ہے بلکہ نیک عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ سنت ِابراہیمی امت مسلمہ کو یاد دلاتی ہے کہ جس طرح وہ آج حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یادگار سنت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس طرح اس خون کو گواہ بنا کریہ وعدہ کریں کہ دین کی سربلندی کیلئے جان کی قربانی کا نذرانہ پیش کرنا پڑے تب بھی وہ اس سے دریغ نہیں کرے گی۔ 

قربانی کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سنت ِ ابراہیمی کو قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے واجب قرار دیا۔ یہ عبادت بلااختلاف اُمت ِ محمدیہ میں سیدنا ابراہیم ؑ اور حضوراکرم ﷺ کی سنت کے طور پر رائج ہے۔ جامع ترمذی میں منقول حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے یوں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ طیبہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور آپؐ قربانی دیتے رہے۔‘‘

قربانی کا اصل مدعا مسلمانوں کے اندر جذبۂ ایثار اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ہر عزیز شے قربان کرنے کیلئے مستعد رہیں۔

ہر عمل انسانی شخصیت، نفس اور قلب و باطن پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے خاص اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ قربانی بھی ایسے ہی اعمال میں سے ہے لیکن وہی قربانی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ ’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج، ۲۲: ۷۳)

اسی بنا ء پر اللہ کی رضا کیلئے کی جانے والی قربانی کے خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا لیتا ہے اوربندے کو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی وہ شان عطا کرتا ہے جس کا ذکر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ  کی اس روایت میں ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا:’’قربانی کے دن اللہ کو خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور کُھروں سمیت آئے گا۔ وہ خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے تو تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے۔‘‘  (جامع ترمذی)

قربانی کی قبولیت میں جو چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں حسن ِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بناء پر کیا جائے تو چاہے قلیل تر ہی کیوں نہ ہو انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے جبکہ وہی عمل اگر صدق و اخلاص، نیک نیتی اور للّٰہیت سے خالی ہو تو خواہ وہ پہاڑوں کی طرح کیوں نہ ہو خدا کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر قربانی میں نیت یہ ہو کہ بہت بڑے اور کثرت سے جانور خرید کر ان کی نمود و نمائش کریں تاکہ لوگ متاثر ہوں اور وہ یہ کہیں کہ بہت بڑا آدمی ہے۔ لوگوں کی نظروں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن خدا کے ہاں ایسا آدمی بڑا نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ خدا کے ہاں پچھلی صف پر بیٹھا ہوا وہ آدمی بڑا ہو جس میں قربانی کرنے کی سکت بھی نہ ہو لیکن اس کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں خدا کی رضا کیلئے قربانی کرتا۔ ممکن ہے قربانی نہ کر کے بھی اُس غریب کو اللہ کی بارگاہ میں وہ اَجر مل جائے جو ریاکاری کی قربانی کرنے والے کو کبھی میسر نہ ہو سکے۔ لہٰذا قربانی کا قبول ہونا اس پر موقوف ہے کہ قربانی کس نیت سے دی جا رہی ہے۔ اس لیے خلوص اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے ہی قربانی کرنی چاہیے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔