ایثار کا درس جاوداں
راہِ خدا میں حضرت اسمعیل ؑ کو قربان کرنے کا واقعہ 10 ذو الحجہ کو پیش آیا اللہ نے اس دن یوم النحریعنی قربانی کے دن کو حج کا مبارک ترین دن قرار دیا اس لئے تمام ملتِ اسلامیہ آزمائش میں حضرت ابراہیمؑ کی کامیابی کی یاد تازہ کرتے ہوئے عید مناتی ہے۔باپ کی قربانی و ایثار اور فرزند کی تسلیم ورضا کی داستان کو اللہ نے ابد تک قائم رکھنے کا انتظام فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی سے وابستہ ہر ہر اقدام کو شعائر اللہ قرار دیتے ہوئے حج کی عبادات و واجبات میں شامل کر دیا۔ قربانی ہو یا تکبیرات یا کنکریاں مارنے کے ذریعے شیطانوں سے بیزاری کا اظہارہو اس داستان خلیل و ذبیح میں انسانیت کیلئے لاتعداد دروس پنہاں ہیں ۔
جب حضرت اسماعیل ؑ 13برس کے ہوگئے تو ان کے والد گرامی بے خبر آتش نمرود میں کود پڑنے والے خلیل خدا حضرت ابراہیم ؑ نے عجیب خواب دیکھا کہ انہیں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قربان کرتے ہوئے ذبح کر دیں ۔ پہلی مرتبہ ’’شب ترویہ‘‘(8 ذی ا لحجہ کی رات) یہ خواب دیکھا اور’’عرفہ‘‘ 9ذی الحجہ اور 10ذی الحجہ کی رات میں پھرخواب آیا۔ انبیائؑ کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں اور وحی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ کو اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم مل رہا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ جو بارہا امتحانِ خداوندی کی گرم بھٹی سے سرفراز ہو کر باہر آئے تھے ایک بار پھر ’ ’بحر ِعشق‘ ‘میں کودنے اور اللہ کی جانب سے ایک اور آزمائش درپیش ہونے پر اپنے اس فرزند کی قربانی کیلئے تیار ہوگئے جسکے انتظار میں عمر کا ایک حصہ گزار دیا تھا اور جسکے حصول کیلئے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کیا کرتے تھے ۔ عشق کی اس معراج پر عقل انسانی آج بھی حیران ہے ۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا، ترجمہ ’’ بیٹامیں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔‘‘
باپ اللہ کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا تو بیٹا بھی خلاق عالم کی آزمائش میں صبر و ایثار کا پیکر بنا نظر آتا ہے حضرت اسماعیل ؑ نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے ماتھے پر آج بھی ثبت ہے : ترجمہ ’’ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کیجیے ، انشاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘
دنیا کے دانش مند ششدرو حیران ہیں کہ اس نوجوان کے قلب و جگر کردار و گفتار میں تسلیم و رضا کا یہ جذبہ کیسے ودیعت ہوا
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑکو آدابِ فرزندی
شیطان جس نے اللہ سے وقت معلوم تک صراط مستقیم پر بیٹھ کر انسانوں کو راہ خداوندی سے بھٹکانے کی مہلت لے رکھی تھی سے یہ منظر تسلیم و رضا دیکھا نہ گیا شیطان نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ حضرت اسماعیل ؑ و حضرت ہاجرہؑ کو بہکا سکے ۔ آخر میں حضرت ابراہیم ؑکے پاس آیا اور ان سے کہا :جو خواب تم نے دیکھا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں تم ہرگز اطاعت نہ کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے نورِ ایمان اور نبوت کے پر تو میں اسے پہچان لیااور کہا :’’’دور ہو جا اے دشمن خدا‘‘ حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جمرہ اولیٰ کے پاس آئے۔ شیطان وہاں بھی ان کے پیچھے آیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے7 پتھر اٹھا کر اسے مارے۔ جس وقت دوسرے جمرہ کے پاس پہنچے تو پھر شیطان کو دیکھا ، دوبارہ 7 پتھر اسے مارے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ میں آئے تو 7اور پتھراسے مارے۔ اور اسے ہمیشہ کیلئے اپنے سے مایوس کردیا۔ وہ لمحہ آ گیا جب کائنات کی نبضیں تھمنے لگیں اور قرآن نے یوں منظر کشی کی کہ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنترجمہ ’’ اور (باپ) ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا۔‘‘’’تلہ للجبین‘‘ سے مراد یہ تھی کہ بیٹے کی پیشانی خود اس کی فرمائش پر زمین پر رکھی اور چھری کو حرکت دی اور تیزی اور طاقت کے ساتھ اسے بیٹے کے گلے پر پھیر دیا ، صرف عشق خدا ہی انہیں اپنی راہ میں کسی شک کے بغیر آگے بڑھا رہا تھا لیکن تیز دھار چھری نے بیٹے کے لطیف و نازک گلے پر معمولی سا بھی اثر نہیں کیا حضرت ابراہیم ؑنے دوبارہ چھری کو چلایا لیکن پھر بھی وہ کارگرثابت نہ ہوئی۔یہ وہ منزل ہے کہ جہاں قرآن ایک مختصر اور معنی خیز جملے کے ساتھ انتظار کو ختم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ کی کامیابی کا اعلان کردیتا ہے: ترجمہ ’’ اس وقت ہم نے ندا دی۔اے ابراہیم ! خواب میں جو حکم تمہیں دیا گیا تھا وہ تم نے پورا کردیا۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں ۔‘‘
خداوند عالم حضرت ابراہیم ؑ کے جذبۂ قربانی کو شرف قبولیت عطاکرنا چاہتے تھے اسی لئے خدا نے مینڈھا بھیج دیاتاکہ بیٹے کی جگہ اس کی قربانی کریں اور مراسم حج اور سر زمین منیٰ میں آنے والوں کیلئے اپنی سنت چھوڑ جائیں۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : ترجمہ ’’بے شک یہ کھلی ہوئی آزمائش تھی اورہم نے ذبح عظیم کو اس (اسماعیل ؑ ) کا فدیہ قرار دیا۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ رب کا شکر بجا لائے۔ اس مینڈھے کے سینگ کئی سال تک خانہ کعبہ کے اندر لٹکے رہے۔ (ابن کثیر، قصص الانبیاء) یہ قربانی اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ ہمیشہ کیلئے ملت ِ ابراہیمی کا شعار ٹھہرا دی گئی اللہ نے اس قربانی کی یاد ہمیشہ باقی رکھنے کیلئے انتظام بھی فرما دیا۔ترجمہ ’’اور ہم نے انکا تذکرہ بعد میں آنیوالی قوموں میں باقی رکھا۔ابراہیم پر سلام ہو۔ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ الصافات)
اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کے فرزند کو بچالیا اور ان کی قربانی بھی قبول کرلی یوں یہ دن مسلمانوں کیلئے عید کا دن بن گیا۔ قیامت تک آنے والے قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ میں شامل ہوگئے۔ ترجمہ ’’اور موٹے تازے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ قرار دیا جن میں تمہارے لئے خیر و برکت ہے ۔‘‘ (سورہ حج )
قربانی کی اس داستان کا ہر پہلو انسانوں کیلئے درس عمل ہے ۔اللہ نے اپنے خلیل کی قربانی کے ہر عمل کو باقی رکھنے کا انتظام فرمایا جس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیوں کا عمل اور سنت باقی رکھنا واجب ہے اسی طرح دین اسلام کی راہ میں دی گئی نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر قربانی کو یاد رکھنا مسلمانان عالم کیلئے واجب ہے ان قربانیوں سے وابستہ یادگاروں کو باقی رکھنا اور ان کی تعظیم کرناتقویٰ کی علامت ہے اور اللہ کے نزدیک قربانی کا گوشت نہیں دلوں کا تقویٰ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔
عید قربان شیطانوں اور شیطانی ہتھکنڈوں سے نجات کا بھی درس دیتی ہے ۔قربانی ایسا آبِ حیات ہے جس نے پیغام توحید کو ابدیت عطا کردی تاریخ اسلام گواہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد جب شیطنت پوری قوت سے اسلام پر حملہ آور ہوئی تو نواسۂ رسول الثقلین ﷺ فخر اسماعیل ؑ حضرت امام حسین ؓنے دشت کربلا میں اپنی اور اپنے پیاروں کی لازوال قربانی سے اسلام کے گرد ایسا حصار قائم کیا کہ اسلام کو تاابد زندہ وجاوید کردیا۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ؓ ابتداء ہے اسماعیل ؑ
آج عید الاضحی اسلامیان ِعالم سے تقاضا کررہی ہے کہ شیطان اور اسکے آلۂ کاروں سے نجات اور دوری حاصل کریں ۔ قربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔جب مسلمان ایثار و قربانی کی ’’فضائے ابراہیمی ‘‘پیدا کر یں گے تو اللہ کی مدد بھی شامل حال ہو جائے گی ۔