رشتے کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر ماں باپ اپنی بیٹی کیلئے جاہل ،گنوار،نکما اور فضول شخص منتخب کر لیتے ہیں مگر ایک اچھا پڑھا لکھا شخص رشتہ لے آئے اورکہے کہ میں آپکی بیٹی سے محبت کرتا ہوں تو وہ اسے انکارکر دیتے ہیں بناء کسی جواز کے اور اپنی بیٹی سے پوچھنا تک مناسب نہیں سمجھتے۔ جبکہ ان کی اپنی بیٹی بھی اسے پسند کرتی ہو وہ اپنی ہی اولاد کی پسند کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ اس نے ہماری اجازت کے بنا باہر کیوں محبت کی؟ جبکہ دوسری طرف اسلام نے اس بات کی مخالفت کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ کے گھر کوئی رشتہ آتا ہے تو اپنی بیٹی یا بیٹے سے فیصلہ کرنے سے پہلے ضرور مشورہ کرو اور اسے پورا اختیار دیں کہ وہ آزادانہ طور پر اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔اگر اسے پسند ہو تو آپ بھی پسند کریں اور اگر اسے پسند نہ ہو تو اسے مجبور نہ کریں۔
جبکہ ہمارے ہاں یہ بات دور دور تک عمل میں نہیں ہے۔پہلے تو کوئی اپنی بیٹی سے پوچھتا نہیں اور اگر کوئی دوسرا اسے اپنی اولاد سے مشورہ کرنے کا کہے تو اسے جواب دیتے ہیں ہمارا خون ہے ہمیں پتا ہے کہ ان کیلئے کیا برا ہے اور کیا اچھا ، بھلا کوئی ماں باپ بھی اپنی اولاد کا برا چاہتا ہیــ اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری بیٹی کو بھی ہماری پسند پر اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اگر کوئی والدین اپنی بیٹی سے پوچھ لیں اور جواب میں اگر وہ اعتراض کر دے تو اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بیٹی پر بدچلنی کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔اس سے پورا گھر بلکہ پورا معاشرہ منہ موڑ لیتا ہے۔اس بیچاری پر دبائو ڈالا جاتا ہے ہر کوئی اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے دوست،رشتہ دار اور گھر والے سب۔اگر والدین اپنی بیٹی سے پوچھیں اور بیٹی انکار کر دے یا والدین بیٹی کی مان لیں تب بھی لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں، الزام لگائے جاتے ہیں۔انجام یہ ہوتا ہے کہ والدین لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی بیٹی کی نہیں سنتے اور بس ایک جملہ کہہ دیدیتے ہیں کہ ’’ بیٹا ہم مجبور تھے۔‘‘ اپنی بیٹی کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھنے والے بھی ایسے موقع پر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور اپنی اَناکو لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی پسند اور خوشیوں کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کر بیٹھتے ہیں اور وہ بھی بے دردی سے، اور اگر ان کا یہ فیصلہ غلط ہو جائے تو کہا جاتا ہے ’’ بس نصیب !! اس کے نصیب میں ایسا لکھا تھا۔‘‘
ہم اپنے رسم و رواج کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی زندگیاں برباد کرتے ہیں۔ اسی انا پرستی یارسم و رواج کی وجہ سے بعض لڑکیاں گھر کی دہلیز پار کر جاتی ہیں وہ اپنے والدین کو نہیں بتا پاتیں کہ انہیں فلاں شخص سے محبت ہے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے والدین اس کی پسند کو قبول نہیں کریں گے۔بعض اوقات لڑکیوں کا گھر سے قدم باہر نکالنے کی وجہ ان کے گھر کا ماحول ہوتا ہے کہ اس کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے دل کی بات اپنے گھر والوں کو کھل کر کہہ سکے۔گھر کی دہلیز پار کرنے سے بہتر ہے کہ بیٹی ماں باپ کو کھل کر سب بتا دے کہ اسے فلاں شخص سے محبت ہے، اسے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی بات سنیں اور اس شخص کے بارے میں تصدیق کریں اگر اچھا لگے تو ٹھیک نہیں تو بیٹی کو آگاہ کریں نا کہ اس معاملے کو اَنا کا مسئلہ بنائیں اور گھر کا ماحول خراب کریں۔ خدارا اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا تعلق رکھیں کہ وہ اپنے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے لگیں تو آپ کو بتائیں اور اسے یقین ہو کہ آپ اس کی بات سنیں گے، اَنا کو بیچ میں نہیں لائیں گے۔