لوگ دکھ میں بھی مسکراتے ہیں۔۔۔نذیر قیصر کی زیر صدارت زینۃ دل ادبی محفل کے زیر اہتمام مشاعرہ ملک بھر سے شعرا کی شرکت
صوبائی دارالحکومت لاہور میں عید الاضحی سے چند روز قبل انیل ارشاد خان کی رہائش گاہ پر زینہء دل ادبی محفل اور انیس احمدکے زیر انتظام مشاعرہ ہوا جس کی صدارت ملک کے مایۂ ناز شاعر جناب نذیر قیصر صاحب نے کی۔ مشاعرے کو کراچی کے ایک نجی ٹی وی کی جانب سے لائیو نشر کیا گیا جو پوری دنیا میں دیکھا گیا۔کراچی سے نسیم شیخ اور جناب نظر فاطمی جبکہ نیو یارک سے جناب اعجاز احمد بھٹی خصوصی طور پر شامل ہوئے۔ مشاعرے میں کلر کہار سے عرفان خانی (عالمی ادب اکادمی کے سربراہ) ، ڈیرہ اسماعیل خان سے رحمتہ اللہ عامر، حافظ آباد سے شاہ دل شمس صاحب، آصف جاوید اور ساجد لطیف صاحب نے شرکت فرمائی۔لاہور سے پروین سجل ، انمول گوہر، عابدہ قیصر، تجدید قیصر ، وحید ناز، راشد ممتاز لاہوری اور محمد علی صابری موجود تھے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض انیس احمد نے احسن انداز میں ادا کئے ، مشاعرے کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا جسکی سعادت انیل ارشاد خان نے حاصل کی۔نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے انیس احمد صاحب نے سب سے پہلے اپنا کلام پیش کیا۔
عشق ایسا ہوا آخری سانس میں
عمر بھر کا صلہ آخری سانس میں
انمول گوہر نے اپنا کلام سنایا۔ راحیل ارشاد خان نے اپنی دو غزلیں پیش کیں۔ انیل ارشاد خان نے بھی اپنی دو غزلیں سنائیں۔ پہلی غزل کے چند اشعار
آنکھوں کی جھیل چھوڑ کے دریا تلاش کر
دو گھونٹ لے کے پانی کے پیاسا تلاش کر
جاڑوں میں دھوپ کھینچ کے لائے تھے ہم یہاں
گرمی میں اب انیل تو سایا تلاش کر
دوسری غزل یہ سنائی۔
دل کا تو آئے روز تماشا عجیب ہے
اس پر بھی مضطرب ہے کہ جاناں قریب ہے
ناراض ہو رہے ہیں یہ ناصح بھی اب انیل
واعظ خفا خفا ہے تو برہم خطیب ہے
وحید ناز نے پنجابی اور اردو کلام پیش کیا ۔ ثقلین جعفری صاحب نے اپنے اشعار سے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔
بات دستار تک چلی آئی
میرے کردار تک چلی آئی
ہائے ثقلین وہ ترے پیچھے
گھر سے بازار تک چلی آئی
…٭٭…
گلِ زخمِ ہے اور میں ہوں
محبت کا ثمر ہے اور میں ہوں
وہ مطلوبِ نظر تھا اور میں تھا
وہ محبوبِ نظر ہے اور میں ہوں
…٭٭…
پروین سجل نے اردو اور پنجابی میں خوبصورت نظم اور اشعار گوش گزار کئے۔ محمد علی صابری صاحب نے متفرق اشعار اور غزلیات پیش کی۔
ظلم ہے امن کو نگلتا ہوا
چار سو ہے جہان جلتا ہوا
دیکھتا ہوں خود کو اندر سے
صابری ٹوٹتا بکھرتا ہوا
…٭٭…
دشوار ہے کٹھن ہے مگر کاٹنا تو ہے
دنیا میں زندگی کا سفر کاٹنا تو ہے
مانا کہ آج صابری دنیا پہ بوجھ ہوں
اب عمر کا یہ پچھلا پہر کاٹنا تو ہے
شاعر، ادیب، ناول نگار راشد محمود لاہوری کی طرف سے کلام پیش کیا گیا۔ نذیر قیصر کی صاحبزادی تجدید قیصر نے بھی اشعار سنائے۔ رحمتہ اللہ عامر صاحب نے سنجیدہ و مزاحیہ کلام سنایا۔جدید لہجے کے خوبصورت شاعر شاہ دل شمس صاحب نے بھی اپنے کلام سے نوازا۔ لطیف ساجد کے اشعار سے حاضرینِ محفل بہت محظوظ ہوئے۔ عرفان خانی نے دلفریب اشعار پیش کئے۔ آصف جاوید نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ نظر فاطمی نے متفرق اشعار اور ترنم سے غزل پیش کی۔ سید سلمان گیلانی نے نعت اور مزاحیہ کلام پیش کیا۔ نسیم شیخ نے اپنے کلام سے حاضرین پر سحر طاری کر دیا۔ اعجاز احمد بھٹی نے اردو غزل اور پنجابی نظم پیش کی۔آخر میں صاحبِ صدر نذیر قیصر نے اپنا صدارتی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے میزبانوں خصوص طور پر انیل ارشاد خان و بیگم ریشماں انیل، انیس احمد ، زینۂ دل ادبی محفل ور شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے جگر مراد آبادی صاحب کے ساتھ پڑھے ہوئے مشاعروں کی یادوں کا تذکرہ کیا اور اپنی تازہ ترین غزلیں پیش کیں۔
دل سے دنیا نکال دی میں نے
آگ کاسے میں ڈال دی میں نے
پیاس چھلکی تھی میری چھاگل سے
آسمان تک اچھال دی میں نے
نقشِ پا ہیں میرے ستاروں پر
وقت کو اپنی چال دی میں نے
تیری جنت کے ساتھ دنیا بھی
تیرے پیروں میں ڈال دی میں نے
اور وہ جب پہلی نیند سے جاگی
اس کو پتوں کی شال دی میں نے
رات کے ہاتھ میں تھی شاخِ گلاب
شاخ بوتل میں ڈال دی میں نے
شاعروں کی پرانی محبوبہ
شاعری سے نکال دی میں نے
ایک مچھلی جو ہاتھ آئی تھی
پھر سے دریا میں ڈال دی میں نے
لوگ دکھ میں بھی مسکراتے ہیں
اس کو اپنی مثال دی میں نے
اور آخر خدا کی صورت بھی
اپنی غزلوں میں ڈھال دی میں نے
مشاعرے کے اختتام پر انیل ارشاد خان کی اردو شاعری کی دوسری کتاب’’پابجولاں خواہشیں‘‘اور نثر کی پہلی کتاب ’’آرٹیکل شپ، گردِ سفر اور فراز‘‘ حاضرین میں تقسیم کی گئیں۔