شہادت حضرت عثمان غنیؓ

تحریر : مفتی عبدالرزاق نقشبندی


رسول اللہﷺ کے تمام اصحاب پیکرِ صدق و وفا ،ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمتوں کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینارہیں جن سے جہان ہدایت پاتاہے ،وہ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کیلئے پیکرِرُشدوہدایت ہیں۔حضرت عثمان غنیؓ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے متصف فرمایا حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپؓ سے حیا کرتے تھے۔آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ اے عثمان !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔

ایامِ جاہلیت میں بھی آپؓ کا خاندان غیر معمولی وجاہت وحشمت کا حامل تھا۔اُمیہ بن عبدشمس کی طرف نسبت کے سبب آپؓ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے۔آپؓ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی۔رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپؓ چوتھے شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔

حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺنے فتنوں کا بیان کیا،اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا ، آپ ؐ نے فرمایا : ’’یہ شخص اُس دن(یعنی فتنوں کے دورمیں) ہدایت پر ہوگا ‘‘،میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔‘‘ (ترمذی ) 

ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے۔ مستقبل کیلئے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وفطرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے۔سورہ بقرہ کی آیت261تا 266صدقہ و خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے ،ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ؛’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے7 ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اور اللہ جس کیلئے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے۔‘‘ (البقرہ:261)صحابہ کرامؓ کی زندگیاں صدق واخلاص وفاشعاری وجاں نثاری کا عملی اظہار ہیں۔حضرت صدیق اکبرؓ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹادیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں ،یہی جذبہ حضرت عمر فاروقؓ وحضرت علی ؓکی زندگی میں نظر آتاہے لیکن حضرت عثمان غنیؓہرمشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظرآتے ہیں۔صحابہ کرام ؓجو صدق ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں قحط پڑا،اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ، مدینے کے تاجر حضرت عثمان غنیؓکے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپؓ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔آپؓ نے تاجروں سے پوچھا کس لئے آئے ہو ؟،کہنے لگے : ہمیں خبر ملی ہے کہ آپؓ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں ، آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپؓ نے کہا: اندر آئو ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمانؓ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپؓ نے کہا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے ؟۔اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ، آپؓ نے کہا : کچھ اور بڑھائو ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ، آپ ؓنے کہا: اور بڑھائو ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ ،آپ ؓنے کہا: اور بڑھائو ، اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دے گا جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں۔آپؓ نے کہا: اور بڑھائو ، ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں۔اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپؓ نے کہا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجائو کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔ حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ عثمان نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا۔‘‘ (اِزالۃ الخفاء، جلد2، ص: 224)

حضرت عثمان غنیؓکے 12 سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہوتاگیا ، آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے۔ 28ھ میں بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا ،30ھ میں طبرستان ، 33ھ میں قسطنطنیہ سے متصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے  فتوحات کا یہ سلسلہ آپؓ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔ آپؓکے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھا لیا کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سینکڑوں اقوام آباد تھیں فطری طورپر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجودتھے ،نتیجتاً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیاجس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ ، کوفہ اور مصر سے تقریباً  2 ہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کیلئے مدینہ پہنچے ، حضرت عثمان غنی ؓ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40روزتک جاری رہا ،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کر دیئے ۔ حضرت ام حبیبہؓنے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا۔حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علی ؓنے حضرات حسنین کریمین ؓکو حضرت عثمانؓکی حفاظت کیلئے بھیج دیا ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بھی جانثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے ۔ محاصرے کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے عرض کی کہ آپؓ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے ،ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں ،مکہ حرم ہے وہاں یہ آپؓ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔

حضرت عثمان غنیؓ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیاکہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا ء کیلئے مسلمانوں کا خون بہائے ،دوسری صورت کا جواب دیاکہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس مقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسولؐ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔(مسند امام احمد بن حنبل )

حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ نے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں ۔آپؓ نے اُنہیں منع کر دیا ، اگرآپؓ کا محاصرہ کرنے والے 2ہزار سے بھی کم افراد تھے تو آپؓکے مکان کے اندر اور باہر آپؓ کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے ،آخری وقت تک یہ سب آپؓ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑیں گے ،لیکن آپؓ نے اس کی اجازت نہ دی۔آپؓ کا ایک ہی جواب تھا : ’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا ‘‘ جمعۃ المبارک 18 ذوالحجہ 35ھ کو آپ ؓنے خواب میں دیکھاکہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓتشریف فرما ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمارہے ہیں ’’عثمان جلدی کرو ،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)بیدار ہوکر آپؓ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ،تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپؓ کو تلاوت کرتے ہوئے شہید کردیا ،اس وقت آپؓ سورہ بقرہ کی آیت: 137 ترجمہ؛ ’’تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے۔حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام ،کہ آپؓ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کیلئے مدینہ کی سرزمین اور مسلمانوں کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔جانثار آپؓ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپؓ نے اجازت نہ دی۔

آپؓ کی شہادت 18ذی الحجہ سن35ھ میں ہوئی۔ یہ جمعہ کے دن عصر کا وقت تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔