خیبر پختونخوا کابینہ میں پھر اکھاڑ پچھاڑ

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں اختیارات کی کشمکش پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی چل رہی ہے ۔گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ محمود خان بظاہر ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو اختیارات کا منبع گورنر ہائوس ہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی پہلا تنازعہ سابق آئی جی پولیس صلاح الدین محسود کے تبادلے کے وقت پیش آیا۔ ایک شخصیت تبادلہ نہیں چاہتی تھی لیکن دوسری شخصیت کا پلڑا بھاری نکلا اسی طرح کابینہ سے دیگر افراد بھی ایک شخصیت کی پسند وناپسند سے باہر کئے گئے۔ دوسری جانب گورنر شاہ فرمان نے ثالثی کا کردار بھی بخوبی ادا کیا۔

وزیراعلیٰ محمود خان اور عاطف خان کے مابین اختلافات اس وقت عروج پر پہنچ گئے تھے جب وزیراعلیٰ نے عاطف خان کو شہرام ترکئی سمیت کابینہ سے نکال باہر کیا ،یہ دونوں وزراء طویل عرصے تک کابینہ سے باہر رہے ،تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر گورنر شاہ فرمان آگے آئے اور اس بار انہوں نے ثالثی کا کردار بخوبی ادا کیا ۔ عاطف خان اور وزیراعلیٰ محمود خان کو ایک ہی میز پر بٹھایا،دونوں کے گلے شکوے دور کئے جس کے بعد عاطف خان کابینہ میں واپسی پر رضامند ہوئے لیکن اب ایک بارپھر نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ محمود خان نے اپنی ٹیم میں ایک بارپھر تبدیلی کی ہے اور صوبائی وزیر بہبود ہشام انعام اللہ اور مشیر قلندر لودھی سے نہ صرف قلمدان واپس لے لئے ہیں بلکہ ان کو کابینہ سے بھی فارغ کردیاہے ،ابتداء میں تو اسے کابینہ میں معمول کاردوبدل سمجھا گیا جو پہلے ہی سے متوقع تھا لیکن بعدازاں ہشام انعام اللہ کی جانب سے وزیراعلیٰ کے نام لکھے گئے خط نے معاملے کا رخ بدل دیا۔ ہشام انعام اللہ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو لکھے گئے خط میں انہیں کابینہ سے نکالنے کی تمام تر ذمہ داری گورنر شاہ فرمان اور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور پر ڈال دی۔ ہشام انعام اللہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہاگیا تھا کہ وہ گورنر شاہ فرمان اور علی امین گنڈا پورکو ابتداء ہی سے ناپسند رہے ہیں۔ انہیں کابینہ سے نکالنے کی کوششیں کی جارہی تھیں اور بالآخر وہ اس میں کامیاب رہے ۔یہ ایک سنگین الزام ہے جو ایک سابق صوبائی وزیر کی جانب سے گورنر اور وفاقی وزیر پر لگایاگیا ہے۔ اس حوالے سے گورنر شاہ فرمان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ہشام انعام اللہ کا تعلق لکی مروت سے ہے، اس سے قبل ان کے پاس صحت کا محکمہ تھا جس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی تاہم انہیں ڈاکٹروں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرناپڑا بالآخر ان کی وزارت تبدیل کردی گئی تھی اور انہیں سماجی بہبود کا محکمہ دیدیاگیا تھا۔ اس محکمے میں بھی وہ انتھک محنت کررہے تھے اس سے قبل بھی ہشام انعام اللہ کو کابینہ سے باہر کرنے کی خبریں آئی تھیں لیکن وہ خود کو بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن یوں لگتاہے کہ وفاق اور صوبے کی دو طاقتور شخصیات سے تصادم اس بار انہیں مہنگا پڑا۔ وزیراعلیٰ محمود خان پر وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور اور سپیکر اسد قیصر کے بھائی کو بھی وزارتیں دینے کیلئے شدید دبائو کا سامنا ہے۔ تجزیہ کار کابینہ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو بھی اسی سے جوڑ رہے ہیں لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ گورنر ہا ئوس اس وقت بھی صوبے میں طاقت کا مرکز ہے۔ اس کا بخوبی اندازہ سینیٹ انتخابات میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر بھی ہوگیا تھا جہاں وزیراعلیٰ کے بجائے گورنر شاہ فرمان کا عمل دخل زیادہ رہا ۔ یقینا وزیراعلیٰ محمود خان بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہوں گے لیکن وہ اس معاملے پر کھل کر نہیں بول رہے ۔ہشام انعام اللہ کے خط سے ایک اور بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ خط انہوں نے دوپہر کو وزیراعلیٰ کو لکھا تھا جس میں واضح کیاگیاتھا کہ اسی خط کو ان کا استعفیٰ بھی سمجھا جائے، اس کے باوجود کہ ان کا استعفیٰ منظور کیاجاتا انہیں پھر بھی برطرف کیاگیا جو انتہائی اچھنبے کی بات ہے۔ اس طریقے سے شاید ہشام انعام اللہ کو ’’زوربازو‘‘ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔سوات سے تعلق رکھنے والے 2 مشیر ایسے بھی ہیں کہ جنہیں کب کا فارغ کردیاجاناچاہئے تھا ان دونوں مشیروں کے بارے میں متعدد رپورٹس بھی وزیراعلیٰ کو پیش کی جاچکی ہیں لیکن وہ بدستور اپنے عہدوں پر کام کررہے ہیں ،ان وزیر اور مشیروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ان کے کریڈٹ پر کچھ ہے تو صرف ان کا تعلق وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع سے ہونا ہے،اسی طرح سپیکر ،وفاقی وزراء کے بھائی اور بیٹے بھی اس کابینہ میں شامل ہیں جن کو صرف ان شخصیات کو خوش رکھنے کیلئے رکھا گیا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو اگلے 2 سال تک جو الیکشن کے سال ہیں پی ٹی آئی کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ خطے کے سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں حالات انتہائی غیر متوقع ہیں جس کے یقینی طورپر اثرات خیبرپختونخوا پر بھی پڑیں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ سرحدوں کے حوالے سے معاملات وفاق کی ذمہ داری ہے لیکن اگر افغانستان سے نقل مکانی ہوتی ہے تو اس کے یقینی طورپر اثرات خیبرپختونخوا پر بھی پڑیں گے ۔ان تمام تر حالات میں خیبرپختونخوا میں ایسی مضبوط قیادت ضروری ہے جو فوری فیصلے کرسکے ،وفاق کے ساتھ مشاورت کرے اور کسی بھی ایمرجنسی صورتحال کو سنبھال سکے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے ایک دوسرے سے ہی الجھ پڑی ہیں ، جے یو آئی اور اے این پی کی ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری جاری ہے پی ڈی ایم کی چھتری تلے کچھ عرصے تک حکومت کو للکارنے والی دونوں جماعتیں اب ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں ۔ اس معاملے کی ابتداء جے یو آئی کے جنوبی وزیرستان کے جلسے سے ہوئی جہاں مولانا فضل الرحمن نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اے این پی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس پر اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار نے جے یو آئی پر پرویز مشرف اور انتہا پسندوں کے حمایتی ہونے کا الزام عائد کیا ،جس کے بعد دونوں جماعتوں کی جانب سے لفظی گولہ باری شروع ہو گئی اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے قائدین پر مختلف الزامات عائد کئے ۔جنوبی وزیرستان میں جمعیت علمائے اسلام کا مضبوط ووٹ بنک ہے۔ اے این پی بھی قوم پرست جماعت ہونے کی حیثیت سے اس علاقے میں مضبوط پوزیشن کی دعویدار ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت کو بھول کر ایک دوسرے پر حملے کررہی ہیں اور حکومت کیلئے فی الحال چین ہی چین والی صورتحال ہے ۔ اس وقت دو چیزیںعوام کو کھائے جارہی ہیں جن میں ایک شدید حبس اور گرمی میں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس حوالے سے جلسے جلوس تو درکنار بیانات تک جاری نہیں کئے جارہے ۔اپوزیشن جماعتوں کا کام ہوتا ہے حکومت پر دبائو بڑھانا تاکہ اس کی کارکردگی بہتر کی جاسکے اور عوام کی مشکلات کا ازالہ ممکن ہو لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

 اپوزیشن جماعتیں صرف اسی وقت باہر نکلتی ہیں جب ان پر یا ان کے قائدین پر بادل نخواستہ کوئی براوقت آئے ۔اے این پی کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے سب سے بڑا اختلاف ہی یہی تھا کہ یہ جماعتیں صرف اور صرف اپنے قائدین کو بچانے اور اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو ہٹانے کیلئے جلسے جلوس کررہی ہیں ۔اے این پی کی قیادت پر اس طرح کا کوئی کیس نہیں لہٰذا اس اتحاد سے نکلا جائے اور ایسا ہی ہوا ۔اے این پی اس اتحاد سے تو نکل گئی لیکن عوامی مسائل کیلئے بھی اس جماعت نے کوئی آواز نہیں اٹھائی ۔یہی حال پیپلزپارٹی کا بھی ہے۔

 اس تمام تر صورتحال کا فائدہ حکومت کو مل رہا ہے جو نہ صرف مہنگائی اور لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں ناکام ہے بلکہ اندرونی اختلافات میں بھی گھری ہوئی ہے لیکن اپوزیشن کی نااہلی کے باعث اس کی مقبولیت میں بدستور اضافہ ہورہا ہے جس کی ایک جھلک آزادکشمیر انتخابات میں دیکھنے کو مل گئی ہے جہاں تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔