سندھ میں اپوزیشن ’’ایک پیج‘‘ پر۔۔۔؟
کیا اگلے عام انتخابات میں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی طویل حکومت کا خاتمہ ہوجائیگا۔۔؟یہ وہ سوال ہے جو اب کراچی کی ہر سیاسی اور سماجی بیٹھک کا موضوع بن چکا ہے۔مبصرین اس امکان کو خاص اہمیت دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت کا خاتمہ ممکن بنانے کیلئے بہت سے سیاسی مخالفین ایک پیج پر جمع ہورہے ہیں۔ اس ایک پیج پر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پاکستان کے علاوہ ہ پاک سرزمین پارٹی بھی شامل ہوگئی ہے۔چیئرمین پی ایس پی مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ’’صوبے کو پیپلزپارٹی کی جاگیر بنا دیا گیا ہے، سندھ ریاست کے اندر ریاست بن چکاہے۔‘‘
دوسری جانب ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا بپھر گیا ہے،کراچی میں اس کی شرح 23 سے 26 فیصد کو چھو رہی ہے ۔ تمام ہسپتال کورونا مریضوں سے بھر چکے ہیں ایدھی ایمبولینس سروس کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں انہوں نے صرف ایک روز میں 20ایسی میتوں کو ہسپتال سے سرد خانے پہنچایا جو کہ کورونا کا شکار ہوکر متعلقہ ہسپتال یا عام ہسپتال کے کورونا وارڈ میں داخل تھے۔ حکومت سندھ نے صوبے میں ایک بار پھر سخت لاک ڈاؤن کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر پہلے مرحلے میں عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے،سماجی فاصلہ یقینی بنانے کیلئے سی ایم ہاؤس کے دروازے عوام کیلئے بند کردئیے گئے ہیں،جامعات سمیت تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی بند کیا جاچکا ہے۔ ماہرین طب کا خیال ہے کہ بات بہت بڑھ چکی ہے۔اب سخت لاک ڈاؤن کی نہیں بلکہ کرفیو نما اقدامات کی ضرورت ہے۔سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کورونا کیخلاف عملی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا کہ عوام ماسک پہنیں اور سماجی فاصلہ رکھیں۔
سوال یہ ہے کہ کراچی میں ہی کورونا مثبت کیسز کی شرح میں بے لگام اضافہ کیوں ہوا۔۔؟یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی نصف ذمہ داری خود لاپرواہ عوام کی اکثریت پر اور نصف ذمہ داری سرکاری حکام پر عائد ہوتی ہے۔ عوام اپنے معمولات زندگی بدلنے اور سرکار ٹھنڈے کمروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ ماہرین طب کی جانب سے کراچی میں کورونا کیسز میں اضافہ عیدالاضحی سے قبل سہراب گوٹھ کے قریب لگنے والی ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی اور ملیر بکرا پیڑی کو بھی قرار دیا جارہاہے جہاں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ہزاروں بیوپاریوں نے لاکھوں جانوروں کو فروخت تو کیا لیکن وہ اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی ثابت ہوئے۔ ملیر بکرا پیڑی میں تو کسی بیوپاری کو ماسک لگا نہیں دیکھا گیا،علاقہ ڈپٹی کمشنر نے بھی اس پر توجہ نہیں دی ،خریدار وں کی اکثریت ماسک لگاکر آتی رہی تاہم یک طرفہ احتیاط اس قدر مؤثر ثابت نہیں ہوئی ۔ اعدادوشمار کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کے بعد مثبت شرح کیسز میں دوسرے نمبر پر اضافہ آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے ان علاقوں میں ہوا ہے جہاں گزشتہ دنوں جم غفیر اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھا۔شکر ہے کہ کراچی میں آزاد کشمیر کے مہاجرین کے لیے بنائے گئے مختلف 30سے زائد پولنگ اسٹیشنزپر ووٹرز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر ویرانی چھائی رہی ورنہ یہاں سے بھی اس وائرس کو مزید لوگوں تک پہنچنے کا موقع مل جاتا۔
صوبہ سندھ کا انتظام احسن طریقے سے چلانے میں حکومت سندھ کتنی سنجیدہ ہے ،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ ایک جانب کراچی میں سخت لاک ڈاؤن کی بات کی جارہی تھی تو دوسری جانب ایک وائرل ہونے والی ویڈیو کے مطابق وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ جب سہیون شریف پہنچے تو اچھے خاصے ’’ جیالوں ‘‘نے ان کا بھرپور استقبال کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ سختی صرف کراچی میں کی جائے،سہیون میں کورونا سے ہم خود نمٹ لیں گے۔عوامی حلقوں نے اس استقبال پر خوب واویلہ مچایا اور سوال کیا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کی جنگ کیلئے ہر شہر کی الگ پالیسی کیوں ہے۔۔؟دوسری جانب تحریک انصاف نے سندھ میں فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیاہے۔پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان، بلال غفار، ارسلان تاج، سعید آفریدی سمیت دیگر رہنمائوں نے سندھ ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی حکومتیں اگست 2020ء میں ختم ہو چکی ہیں جبکہ صوبائی حکومت 120دن کے اندر نئے انتخابات کروانے کی پابند ہے، ایک سال گزرجانے کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے۔ میڈیا سے گفتگو میں خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی جیت کا خوف ہے۔ تحریک انصاف کراچی کے ترجمان و رکن سندھ اسمبلی جمال صدیقی نے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کوشکست کی اصل وجہ ان کی سندھ میں ناقص کارکردگی ہے، کشمیر کے عوام دیکھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کراچی، حیدر آباد، لاڑکانہ جیسے شہروں کا کیا حال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی مخالف سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت دو حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ایک حصے کا جھکاؤ ’’انتظامی امور‘‘ کی طرف اور دوسرے حصے کا جھکاؤ ’’لیڈر شپ‘‘کی ہدایات کی طرف ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’’سیاسی ایڈمنسٹریٹر‘‘کی تقرری کا فیصلہ عملی شکل اختیار کرنے میں تاخیر کا شکار ہے لیکن پیپلز پارٹی کے حلقوں کے مطابق یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اس لیے کسی قیاس آرائی سے گریز کیا جائے۔