کسی عمل کو معمولی نہ سمجھیے
اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجروثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو کسی پر اس سے کم تر اجروثواب کا۔اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے ، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخرو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کیلئے موجب ِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو نصیحت فرمائی کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘۔(مسلم، ترمذی، سنن ابی دائود، مسنداحمد)عربی زبان میں یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز سے سختی سے روکنا مقصود ہو۔ اس اسلوب میں جو زور پایا جاتا ہے ، اسے زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺنے نہ صرف یہ کہ بطریق اجمال اس طرف توجہ دلائی بلکہ اپنے ارشادات میں ایسے متعدد کاموں کا تذکرہ کیا جنہیں عام طور سے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور زور دے کر فرمایا کہ انہیں ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔
خندہ پیشانی سے پیش آنا: حضرت ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔‘‘ (مسلم) کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔
حضرت ابوجری جابر بن سلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمایئے؟ آپﷺ نے فرمایا:’’ اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمہارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمہارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو۔‘‘ (مسنداحمد)
دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: ترجمہ ’’یعنی کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔‘‘اسے معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دو۔ اس حدیث میں آپﷺ نے خندہ روئی سے ملنے کے علاوہ ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلا دینا بظاہر بہت معمولی کام ہے۔ لیکن آپﷺ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی انجام دینا چاہیے اور اس پر اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں کیا جانے والا یہ معمولی عمل بھی انسان کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا۔ وہ عورت بدکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس عمل کی وجہ سے) اس کی مغفرت کردی۔(بخاری، کتاب الانبیاء ، ترجمہ مسنداحمد) جب حیوانات کے ساتھ ہمدردی کرنے اور انہیں پانی پلانے کا یہ اجر ہے تو انسانوں سے ہمدردی کرنے اور انہیں پانی پلانے کا کتنا بڑا اجر ہوگا؟
دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے کہ نبی کریمﷺ سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کیلئے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا ، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا۔‘‘(مسند احمد 483)
حدیث ِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انہیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔
سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا :عموماً کسی کو دعوت اس موقعے پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سردمہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ حضرت جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہؓ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انہوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:’’ بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کیلئے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں۔‘‘(مسنداحمد)
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’ اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے۔‘‘(بخاری)
کامیاب انسان وہ ہے جو گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ کے خانوں میں تقسیم کر کے صغیرہ گناہوں کے معاملے میں ڈھیل نہ اختیار کرے بلکہ گناہ کے ہرکام سے بچنے کی کوشش کرے، چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا۔ اور نیکی کے ہرکام کی طرف لپکے، چاہے وہ بڑے سے بڑا کام ہو یا معمولی سے معمولی کام ۔