توازن اوراعتدال پسندی
محبت اور نفرت، انسانی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں جو بیک وقت انسانی وجود میں موجود ہیں اور انسانی نفس اور انسانی زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہیں۔ بالکل اس طرح جیساکہ خوف اور اُمید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پُراثر خصوصیات ہیں جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور اُمید کی خصوصیات کو صحیح رُخ عطا کیا ہے، اسی طرح اس نے انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انہیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ نمایاں ہو، طاقتور ہو، غالب ہو اور اقتدار کا حامل ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بڑی عمر پائے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بن جائے:قرآن پاک میں آیا ، ترجمہ ’’ اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔‘‘ (العٰدیٰت100: 8)ان خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی یا فکری رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتا ہے۔ پھر اس انسان سے نفرت کرتاہے، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، جواسے نقصان پہنچائے اور جو اس کے ان حقوق میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے جنھیں وہ محض اپنے لیے مخصوص سمجھتا ہے۔
بہرحال، محبت و نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ اسلام فطرت کے ان میلانات و رجحانات سے برسرِپیکار ہونے کے بجائے ان کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے اور ان کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔کیونکہ اگر محبت و نفرت کے جذبات کسی نظم و ضبط کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوکررہ جائیں تو وہ جذبات انسانیت کے جوہر کو تباہ اور اس کی قوتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور انسان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ جذبات نہ صرف دوسروں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ یہ قوتیں نفس کی گہرائیوں میں باہم متصادم ہوکر خود نفسیاتی وجود کیلئے مہلک بن جاتے ہیں۔اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام انسان کو اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ محض اپنی ذات سے محبت رکھے۔ محبت ایک طاقت ور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل و کارکردگی اور تعمیروترقی پر اُبھارتا ہے۔ جو ظاہر ہے خود اسلام کے بھی مقاصد ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان بہرطور عمل پر آمادہ رہے۔مگر اسلام کی نظر میں حُب ِ نفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتا رہے بلکہ اسلام کی نظر میں ہروقت لذتوں کے تعاقب میں رہنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ درحقیقت ہرلحظہ نفس کی خواہشات کے تعاقب میں رہنا، نفس کو ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔
اپنی ذات سے محبت کا مفہوم:دراصل اسلام کی نظر میں حْب ِ ذات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، ایسی رہنمائی جو اسے دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جانب رہنمائی کرے اور آخرت کی فلاح بطورِ خاص ملحوظ ہو۔ اس لیے کہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اور اس کی نعمتیں دائمی ہیں۔ جبکہ دُنیاوی زندگی محض فانی ہے اور دنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی باقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت اور نادانی ہے۔
زندگی کی حفاظت اسی طرح ہوسکتی ہے اور حُب ِ ذات کے فطری جذبے کی تکمیل کا صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو شہوتوں کا غلام بننے اور آخرت کی رُسوائی اور عذاب سے بچائے۔اسلام اسی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کے خوف و نفرت کے جذبات کو صحیح رُخ دیتا اور ان کی مناسب رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جذبۂ حُب نفس کو بروئے کار لانے کیلئے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے محبت بیدار کرتا ہے جو نعمتوں کا حقیقی مرکزوسرچشمہ ہے اور جس نے انسان کو زندگی عطا کی ہے اور انسان کو تمام قوتیں، صلاحیتیں اور خصوصیات بخشی ہیں:ترجمہ ’’اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے۔‘‘ (التغابن64:3) ایک اور مقام پر فرمایا ، ترجمہ ’’ (اے نبیﷺ) اپنے ربّ برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا۔‘‘ (الاعلٰی87:1-2)
ایک اور مقام پر فرمایا،ترجمہ ’’ اے انسان،کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے متناسب بنایا۔‘‘ (الانفطار82: 6-7)
ترجمہ ’’ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اورتری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘(بنی اسرائیل:70)
ایک اور مقام پر فرمایا،ترجمہ ’’کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دئیے اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیئے۔‘‘ (البلد90:8-10) اللہ ہی نے انسان کیلئے روئے زمین پر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی ہیں اور اسے ہرقسم کی آسانیاں بخشی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ اور حیاتِ انسانی نکھرتی اورسنورتی رہے:ترجمہ ’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔‘‘ (البقرہ2:29)پھر ایک اور مقام پر فرمایا، ترجمہ ’’وہی ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو ۔‘‘ (الزخرف 43:12)
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کیلئے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔ ہم نے انہیں اس طرح ان کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں اور ان کے اندر ان کیلئے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں۔ پھر کیا یہ شکرگزار نہیں ہوتے؟‘‘ (یٰسیں36: 71-73)
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کی قوت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور ہرمعاملے میں اس خدائے برتر نے انسانیت کی بھلائی کا پہلو پنہاں فرما دیا ہے:ترجمہ ’’ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔‘‘ (الحج22:78)مزید برآں یہ کہ اللہ سبحانہ اپنے خطاکار اور گناہ گار بندوں کو معاف فرما دیتا ہے:ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو اللہ انہیں یاد آجاتا ہے،اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے ربّ کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کریگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنیوالوں کیلئے۔(آل عمران 3:134-136)
اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفورو رحیم ہے۔ (الفرقان 25:70)۔ قرآن پاک میں ایک اور مقام پر فرمایا، ترجمہ ’’(اے نبیﷺ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔‘‘ (الزمر 39:53 ) یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ، ترجمہ ’’ اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کیلئے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔‘‘ (النساء 4:48)
اسلام اللہ کی پیدا کردہ کائنات سے محبت کا جذبہ اُبھارتاہے اور انسان اور کائنات کے درمیان صداقت اور دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے۔ مومن اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساری زندگی باطل کی قوتوں اور شیطانی بُرائیوں کیخلاف برسرِ پیکار رہتا ہے اس سے اسکی زندگی میں محبت و نفرت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔