غریب رحمدل لڑکا(پہلی قسط)

تحریر : نرمین مبشر


بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا:’’بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔‘‘لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچوں کو بلی کے ایک مریل سے بچے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔ اسے بلی کے بچے پر رحم آ گیا۔ اور اس نے بچوں سے پوچھا:’’اے بچو! اس بلی کے بچے کو بیچو گے؟‘‘’’ہاں بیچیں گے۔‘‘ بچوں نے جواب دیا۔’’کیا لو گے؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔’’جو جی چاہے دے دو۔‘‘ بچوں نے کہا۔لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلی کے بچے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

ماں نے پوچھا:

’’لے آئے روٹی؟‘‘

’’روٹی تو نہیں لایا۔ بلی کے ایک بچے کو لایا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔

’’ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا:

’’ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔‘‘

دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔

راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک کتے کے بچے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پِلے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا:

’’اے لڑکو! اس پِلے کو بیچو گے؟‘‘

’’ہاں بیچیں گے۔‘‘ لڑکوں نے جواب دیا۔

لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دیدیئے اور پِلے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

ماں نے پوچھا:’’لے آئے گوشت؟‘‘

لڑکے نے کہا:’’ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیئے تھے ان کو دے کر میں یہ پِلا لایا ہوں۔‘‘

’’ارے بیٹے!‘‘ ماں نے اداس ہو کر کہا۔’’ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پِلا خرید لائے۔ بھلا یہ پِلا ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کیلئے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔‘‘

لڑکے نے جواب دیا:’’ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔‘‘

تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیئے اور اسے تیل لانے کیلئے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور گھر واپس آیا۔ ماں نے پوچھا: ’’بیٹے! تیل لے آئے؟‘‘ تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔ دن ، مہینے ، سال گزرتے گئے، لڑکا جوان ہو گیا۔ پِلا کتا بن گیا، بلی کا بچہ بڑا ہو کر بلی بن گیا اور چوہے کا بچہ بھی اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

ایک دن نوجوان نے دریا سے مچھلی پکڑ ی اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کے اندر کا حصہ نکال کر کتے کے آگے پھینک دیں۔ کتا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتھر ملا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔ نوجوان نے پتھر دیکھا تو خوشی سے اچھلنے لگاکہ کہیں یہ وہی جادو کا پتھر تو نہیں جسکے متعلق لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور کہا:’’اے جادو کے پتھر! میرے لیے کھانا لا‘‘یہ دیکھ کرحیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے ہی اس کے سامنے ایک بیش قیمت دسترخوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا یا۔ پھر دوڑا دوڑاگھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین و سکون سے زندگی بسر کرنے لگے۔

ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی اسے اتنی پسند آئی کہ اس نے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا ارادہ ماں کو بتایا۔’’واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!‘‘ ماں نے حیرت سے کہا۔ ’’تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں  شادی کاپیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔‘‘

لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا:’’اچھی بات ہے۔ اتنا اصرار کرتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔‘‘رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔