پودوں کا خیال رکھیں (سائنس کہانی)
دادا جان نے محسوس کیا تھا کہ رات کا کھانا کھانے کے دوران اسد بے حد خاموش تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہو۔ کھانا کھانے کے بعد اسد اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تو دادا جان بھی اس کے پیچھے اس کے کمرے میں چلے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ اسد اپنی سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا سوچ میں گم تھا۔’’اسد بیٹا!‘‘ دادا جان نے اسے پکارا تو اس نے سر اٹھا کر دادا جان کی طرف دیکھا اور پھر ان کے احترام میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا لیکن دادا جان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹھو اور مجھے بتائو کہ تم آج خلاف معمول کیوں خاموش ہو۔ کیا کوئی بات ہوئی ہے؟‘‘اتنا کہنے کے بعد دادا جان ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئے تو اسد بھی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’دادا جان! آج ٹیچر بتا رہی تھیں کہ پودے جاندار ہیں ، انہیں زخم بھی لگتے ہیں اور وہ زخم کو محسوس بھی کرتے ہیں۔تب سے میں مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ پودے کیسے جاندار ہو سکتے ہیں اور انہیں کیسے زخم لگتے ہیں۔‘‘اسد نے اپنی پریشانی بتاتے ہوئے کہا تو دادا جان مسکرا دئیے۔
’’آپ کی ٹیچر بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔پودے نہ صرف جاندار ہیں بلکہ انہیں زخم بھی لگتے ہیں جنہیں وہ محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کی طرح پودے بھی زخمی ہونے پر ردعمل دیتے ہیں جس کے لیے مکمل نظام موجود ہے۔‘‘دادا جان نے جواب دیا۔
’’کیسے؟ مجھے تفصیل سے سمجھائیں۔‘‘ اسد حیران ہوا۔
’’اس کُرئہ ارض میں رنگ بھرنے والے خوبصورت پھول، ہرے بھرے درخت اور نازک پودے اس کائنات کو رنگین ہی نہیں بلکہ معطر بھی رکھتے ہیں اور کیسے ممکن ہے کہ خوشبو پھیلانے والے یہ پھول، پودے اور خطرناک گیسوں کو اپنے اندر سمونے والے درخت احساس کے لطیف جذبات سے عاری ہوں۔وسکونسن کے دارالحکومت میڈی سن میں واقع یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن میں کی گئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پودے بھی جانوروں کی طرح خطرہ درپیش ہونے پر دوسرے حصوں کو فوری طور پر آگاہ کرتے ہیں۔ جانوروں میں اس کام کے لیے ایک مکمل اعصابی نظام موجود ہے لیکن پودوں میں یہی کام بغیر اعصابی نظام کے ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نباتات کے پاس بھی انسانوں اور جانوروں کی طرح حس ہوتی ہے یہ مسکراتے بھی ہیں اور تکلیف پر روتے بھی ہیں، یہ باتیں بھی کرتے ہیں اور مثبت و منفی اثرات کو محسوس بھی کرتے ہیں۔‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’انتہائی حیرت انگیز۔ کیسے پتہ چلتا ہے کہ پودے روتے ہیں یا باتیں کرتے ہیں۔‘‘ اسد کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔
’’تحقیق کے مطابق جب کوئی کیڑا پتے یا تنے پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس مقام سے ایک قسم کا مالیکیول نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں کو بھی اس خطرے سے آگاہ کر دیتا ہے جس کے بعد پودے کے دیگر حصوں میں دفاعی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس حیرت انگیز عمل کے مشاہدے کے لیے فلوریسنٹ پروٹین کا استعمال کیا جس کی مدد سے پودے کے اس حصے سے سگنلز کو نکلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس پر کسی کیڑے نے حملہ کیا ہو۔ یہ سگنلز پودے کے دیگر حصوں تک جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پودے کے کسی حصے کو نقصان پہنچنے پر ایک برقیاتی چارج نکلتا ہے جو پودے کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے تاہم یہ الیکٹریکل چارج پودے کے کس حصے سے نمودار ہوتا ہے اس پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ کیا آپ کی پریشانی حل ہو گئی؟‘‘ دادا جان نے جواب دیتے ہوئے کہا تو اسد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’جی دادا جان!آپ نے میری معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ میری پریشانی کا حل بھی بتا دیتا ہے۔‘‘ اسد نے مسکراتے ہوئے کہا تو دادا نے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ دیا.
٭٭٭