خواہشوں کے پر۔۔۔
انسان کے پر نہیں ہوتے۔۔۔مگر اپنی خواہشوں کو پر لگائے ان کو اپنی پلکوں پر بٹھائے وہ کہیں حسین تصور کی دنیامیں کھو جاتا ہے۔جہاں اس کی خواہشات پنپتی ہیں۔۔۔۔۔بڑھتی ہیں ۔ ۔ ۔ پوری ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ان خواہشات کو لے کر وہ اونچی اڑان اڑ لیتا ہے
سارا جہاں اسے اپنا تابع نظر آنے لگتا ہے۔
ہر راستہ اس کے لیے منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اونچی اڑان اورمعطر خوشبوئیں اس کو اپنے حصار میں لے کر کہتی ہیں
جیو ہر پل تمہارا ہے۔۔۔۔
مگر پھر وہ اچانک۔۔۔
چولہے کے قریب کھانا بناتے ہوئے
کتاب پڑھتے ہوئے۔۔۔۔
کوئی کام کرتے ہوئے۔۔۔۔۔
کھانا کھاتے ہوئے۔۔۔۔۔
ٹی وی پر نظر جمائے ہوئے۔۔۔۔۔
رنگ برنگی چوڑیوں کو دیکھتے ہوئے۔۔۔۔
تکیے پر سر رکھے ہوئے۔۔۔۔۔
جب حقیقت کی دنیا میں واپس آتا ہے۔۔۔۔۔
تو خیالی اور تصوراتی دنیا میں خواہشوں کے پورے ہونے کا تصور اس کے لبوں پر مسکان لیے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہوش آنے پر آنکھوں میں آنسو ہی آ جائیں۔۔۔۔۔۔
مگر تصور کے گزرے وہ چند پل جو مسکراہٹ دے دیتے ہیں وہ اس کیلئے قیمتی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
پھر وہ بار بار پلکیں جھپکائے۔۔۔۔ ان میں آنسو چھپائے ۔ ۔۔۔ دوبارہ اپنی خواہشوں کے تصور کی دنیا میں کھو کر خوش ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔