عید ملن ادبی بیٹھک،راولپنڈی اور وفاقی دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی
محترمہ قیصرہ علوی کے خاندان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ وہ ہر دور میں اپنے ہاںاسلام آباد میں ادبی محفلوں کا انعقاد کرتے رہے ہیں،یہ سلسلہ آج سے نہیں کئی دہائیوں پر محیط ہے ، اِن کے ہاں فیض احمد فیض سے لے کر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ، انتظار حسین اور ہر دور کے نامور دانشور شاعر، قلم کار ، خواتین و حضرات شرکت کر تے رہیں ۔
کوروناسے پہلے یہ سلسلہ ہفتہ وار ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ادبی دوری پیدا ہوگئی ۔گذشتہ ماہ یہ سلسلہ بحال ہوا پہلی محفل میںجودوست ویکسین کی دو ڈوز لگوا چکے ہیں اُن کوشاملِ محفل کیا گیا ۔اس بار ادبی بیٹھک میں لیاقت طور ، شوکت کاظمی ، حمید علوی ،خالدہ بابری ، ہمایوں طلعت اور راقم نے شرکت کی، جو کہ ہمارے لئے سا ون کی پہلی بارش کی طرح ثابت ہوئی ، اس محفل میں سب لوگوں نے اپنی اپنی ادبی کاوشیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کیں ۔ اپنی اپنی افسانوں اور شاعری کی کتابیں ایک دوسرے کو پیش کیں۔ اس نشست میں مشاورت سے یہ طے پایا ، کہ جب تک کورونا وباء ہے تب تک یہ ادبی نشست ہفتہ وار نہیں بلکہ پندرہ روزہ ہوا کرے گی۔ 31 جولائی بروز ہفتہ والی ادبی نشست میں میرے پہنچنے سے پہلے پروفیسر خالدہ بابری ، پرفیسر نسرین خالد ، پروفیسر تسنیم خالد ، پروفیسر نصیرہ خالد ، ڈاکٹر شیراز فضل داد ، محترمہ نعیم فاطمہ علوی ، شوکت کاظمی و محترمہ رخسانہ شوکت ، ہمایوں طلعت، ڈاکٹر شیراز اور ڈاکٹر سرور جہان موجود تھے۔ اِس دوران ادب پر ، ملکی حالات اور موسیقی پر تمام دوست اپنی اپنی رائے دیتے رہے، حلقۂ ارباب ذوق راولپنڈی پر گفتگو ہوئی ، حلقۂ ارباب ذوق پر بات چیت ہوئی ، منشار یاد صاحب کو یاد کیا گیا اور رشید امجد صاحب کے افسانے کی بات ہوئی۔
، موجودہ پاکستانی موسیقی پر اور گلوکاروں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ، ہماری اس نشست میں ہر دفعہ پرفیسر قیصرہ علوی کے میاں جناب حمید علوی جو کہ فالج کے مرض میں مبتلا ہیں ، کافی عرصے سے ، اُن کے بھی ملازم ویل چیئر پر بٹھا کر محفل میں لے آیا ، گو کہ وہ بات چیت کر نہیں سکتے ، مگر پھر بھی ہماری ادبی گفتگو ، اور کبھی کبھی جو یار موسیقی کے پروگرام ہوا کرتے ہیں ، اُن کو محسوس ضرور کرتے ہیں ، اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اس ادبی کاوش کو پسند بھی کرتے ہیں ، جو کہ اُن کے چہرے کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے ، آج کی ادبی نشست اس وعدہ کے ساتھ ، اختتا م پذیر ہوئی ، کہ انشاء اللہ اگلے پندرہ دن کے بعد ہم لوگ پھر اکٹھے ہوں گے ۔جب میں وہاں سے اجازت لے کر گھر کے لئے روانہ ہونے لگا ، تو محترم پروفیصر خالدہ بابری نے کہا ، امین صاحب کیا آپ مجھے میرے گھر اُتار دیں گے ، اگر آپ کو کوئی زحمت نہ ہو ، میں نے کہا ضرور میڈم یہ میرے لئے عزت کا مقا م ہوگا ، اور پھر ہم دونوں نے باقی احباب کو خدا حافظ کہا ۔۔۔۔۔۔۔