بچوں کی نفسیات : والدین اور اساتذہ کا کردار(دوسری قسط)

تحریر : قمر فلاحی


ہر کسی کو صاحب اولاد ہونے کی تمنا ہوتی ہے، ایک اولاد پہ کوئی قانع نہیں ہوتا،بڑھاپے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ان کے پاس رہیں اور زیادہ تعداد میں رہیں، مال کی طرح انہیں بچوں کو برتنے اور اس پہ حکم چلانے کا اختیار ہو کوئی ان سے یہ نہ کہے کہ یہ مال آپ کا نہیں ہے۔جن کی اولاد نہیں وہ اپنی لاولدی فخر سے نہیں بیان کرتے، اور اپنے بچوں کو عموما سماجی کاموں میں نہیں لگاتے۔

 یہ سارے امور فتنہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو اسلامی ہدایات کے خلا ف جاتے ہیں۔ چنانچہ مال کے فتنہ سے بچنے کا استعمال اس کاجائز استعمال ہے، صدقات و خیرات اور زکوٰ? میں اسے صرف کرنا ہے،اہل خانہ کی جائز ضروریات پہ اسے صرف کرنا ہے اور مال تو صرف اسے کہا گیا ہے جسے کھا لیا پہن لیا یا اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔اسی طرح اولاد کے فتنہ سے بچنے کا ذریعہ اس کی مناسب تربیت کرنا، اس کے لیے اچھے دوست مہیا کرانا، اچھے استاد اور مربی کا انتخاب کرنا،مناسب ادارہ میں داخلہ کرانا،اور اچھے اطوار سکھاناہے۔ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’اولاد وہ کتاب ہے جسے لکھتے تم ہو اور پڑھ کر تمہاری اولاد سناتی ہے "      (جاری ہے)

بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کیلئے کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، اور اس کے لئے بنیادی شرط بچوں سے قربت ہے اور اس قربت کے ساتھ ساتھ ان سے بے پناہ لگائو بھی ہے۔ آئیے ہم بچوں کی چند نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں :

1۔ پٹنہ میں میرے ایک فلاحی دوست ہیں ان کی گود میں بچیوں کا کھیلنا اور شمع کی طرح اپنے والد کے گرد چکر لگانا اگر دیکھنا ہو تو ان کے گھر میں دیکھا جاسکتاہے، لوگ کہتے ہیں کہ بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں یہ غلط ہے، ماں سے قربت کی وجہ والد کی محبت سے محرومی ہوتی ہے، جب والدیہ محبت دینے کو تیار ہوجائے تو بچے قطعی یہ فرق نہیں سمجھتے ہیں، یہ ہمارے ذہنوں کا فطور ہے۔ بچے آئے دن یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ابو ہمارے لیے مٹھائیاں لاتے ہیں، کپڑے اور کھلونے لاتے ہیں، ہماری ساری ضروریات پوری کرتے ہیں لہذا وہ ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں خود چند گھنٹوں کیلئے جب اپنے بچوں سے دور ہوتا ہوں تو بچے میری کمی کا تذکرہ اپنی ماں سے بار بار کرتے ہیں اور جب اپنے دروازے کے قریب آتاہوں تو والہانہ استقبا ل کرتے ہیں اور ایسا احساس دلاتے ہیں کہ آپ بہت دنوں سے ہم سے دور رہے ہیں۔

میں عرض کر رہا تھاکہ پٹنہ کے اس فلاحی دوست نے اپنی چار پانچ سال کی بچی کی فراک سرکاکر یہ پوچھا کہ آپ نے اندر کپڑا پہن رکھا ہے ؟اس پہ بلا تاخیر اس پیاری سی معصوم سی بچی نے جو جواب دیا وہ قابل غور ہے بچی نے جواب دیا’’کیا آپ یہ بات اپنی زبان سے نہیں پوچھ سکتے تھے، کیا اس کے لیے کپڑا سرکا نا ضروری تھا؟’’ یہ چھوٹے سے جملہ میں بچوں کی ایک خاص نفسیات پوشیدہ ہے کہ بچے بھی شرم کا پتلا ہوا کرتے ہیں جنہیں ہم والدین بے پردگی سکھا دیتے ہیں۔

2۔  المنار ایجو کیئر ارریہ کے ایک مہذب اور منکسر المزاج استاد قاری اطہر صاحب ایک دفعہ اپنے بچے کو نصیحت کر رہے تھے کہ بابو پڑھنا لکھنا چاہیے، شرارت نہیں کرنی چاہیے وغیرہ۔۔۔ اور اس جملہ کو کء دفعہ دہرادیا  تو اس پہ وہ بچہ گویا ہوا کہ’’ ابو زیادہ تیز مت بولیے نہیں تو عبداللہ [اس کا چھوٹا بھاء ]جگ جائے گا۔’’ یہاں بچہ اپنے جملے سے یہ سگنل دے رہا ہے ایک ہی بات کو بار بار نا دہرائیں میں سمجھ چکا جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔ ایک ہی بات کو باربار دہرانے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔اور یہاں میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بچے اس عمر میں باتوں کو مان کر دینے والے نہیں  ہوتے، یہ انکے شوخی کرنے کی عمر ہے اگر آپ کوء بات منوانا چاہتے ہیں تو انہیں ساتھ لیکر بیٹھیں وہ سارا کام کریں گے۔

3۔ الحرائبپلک اسکول سلطان گنج پٹنہ کی بات ہے میں سیڑھیوں سے اوپر جارہا تھا اور ایک چار پانچ سال کا بچہ نیچے اتر رہا تھا اس کے جوتے کا تسمہ کھلا ہوا تھا جو اسے تکلیف دے رہا تھا، جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا بلا جھجک بول اٹھا سر ذرا میرا فیتا باندھ دیجئے نا اور میں نے بلا جھجھک ایسا کردیا۔ یہ بچوں کی وہ نفسیات ہے جس میں بچہ اپنے علاوہ تمام لوگوں کو اپنا خادم سمجھتا ہے اور ہر ایک سے خدمت لینا اپنا بنیادی حق خیال کرتاہے، یہ فطرت اللہ تعالی نے اس لیے  ان کے اندر رکھی ہے تاکہ محتاجی کے وقت وہ پریشان ہونے کے بجائے اپنے ارد گرد موجود افراد سے اپنی حاجت دور کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ڈانٹ ڈپٹ کرکے یہ فطرت دبائی نہ گء ہو تو بچہ ہر مانوس و غیر مانوس سے مدد لینا چاہتا ہے اور اگر انہیں ڈانٹا دبایا گیا ہو وہ تو اپنی مصیبتوں میں جوجھتا رہتاہے مگر اظہار نہیں کر پاتاہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ بچے کپڑے میں پیشاب پاخانہ کرڈالتے ہیں اور کسی کو اس خوف سے نہیں بتاتے کہ لوگ انہیں ڈانٹیں گے۔لہذا بچوں کو کھلنے کا کا موقعہ فراہم کریں انہیں دوست بنائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

ڈاکٹر جمیل جالبی اردوادب کی کثیر الجہت شخصیت

ڈاکٹر جمیل جالبی ان بزرگان ادب میں شمار ہوتے ہیں جن کی تشہیر و تکریم ان کی زندگی میں بھی بہت زیادہ کی گئی

اشعار کی صحت!

کالموں میں لکھے گئے غلط اشعار کا تعاقب کرنا اور پھر تحقیق کے بعد درست شعر تلاشنا کسی صحرا نوردی اور آبلہ پائی سے کم ہر گز نہیںہوتا۔ نوآموز قلم کاروں کو کیا دوش دیں کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی اکثر و بیشتر اپنے کالموں میں نہ صرف غلط اشعار لکھتے ہیں بلکہ ان ہی غلط اشعار کو اپنی تحریروں میں دہراتے بھی رہتے ہیں۔ کلاسیکل شعراء کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیئے جاتے ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز:کیویز کی آج شاہینوں کے دیس آمد

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 5 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کیلئے آج اسلام آباد پہنچ رہی ہے جبکہ گرین شرٹس کا قومی ٹی ٹوئنٹی سکواڈ بھی آج اسلام آباد رپورٹ کرے گا۔ کیویز کیخلاف شاہینوں کے امتحان کا آغاز چار روز بعد 18 اپریل سے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم سے ہو گا۔

ٹوٹا ہاتھی کا گھمنڈ

پیارے بچو!دور دراز کسی جنگل میں ایک دیو قامت ہاتھی رہا کرتا تھا۔جسے اپنی طاقت پر بے حد گھمنڈ تھا۔جنگل میں جب وہ چہل قدمی کرنے کیلئے نکلتا تو آس پاس گھومتے چھوٹے جانور اس کے بھاری بھرکم قدموں کی گونج سے ہی اپنے گھروں میں چھپ جایا کرتے تھے۔

سورج گرہن کیوں ہوتا ہے؟

سورج گرہن آج بھی مشرقی معاشروں کیلئے کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔اس سے متعلق لوگوں میں طرح طرح کے خوف اور عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

جج: اگر تم نے جھوٹ بولا تو جانتے ہو کہ کیا ہوگا؟ ملزم: جی میں جہنم کی آگ میں جلوں گا۔ جج: اور اگر سچ بولو گے تو؟ملزم: میں یہ مقدمہ ہار جائوں گا۔٭٭٭