اقصیٰ کا پودا

تحریر : صائمہ مبارک


ماہین اور اقصیٰ بہت خوش تھیں کیونکہ اْن کے سکول میں سب بچوں کے درمیان ایک بہت مزے کا مقابلہ کروایا جا رہا تھا یہ سکول کی گراونڈ میں پودے لگانے کا مقابلہ تھا۔تمام بچوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی اپنی پسند کے پودوں کے بیج لے کر آئیں اور سکول کے میدان میں فراہم کی گئی جگہ پرپودے لگائے اور ان کی نشوونما کا پورا پورا خیال رکھیں۔ جس طالبِ علم کا پودا جلد بڑھنا شروع ہو جائے گا اْسے انعام دیا جائے گا۔

ماہین اور اقصیٰ نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا۔ اقصی نے اپنی دادی جان کی مدد لی کیونکہ وہ باغبانی کا شوق رکھتی تھی اور انہوں نے گھر میں بہت سے پودے لگا رکھے تھے۔وہ ان کی دیکھ بھال کا بھی بہت خیال رکھتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے آپ ایک گڑھا کھودنا اور پھر اس میں کچھ مٹی اور کھاد ملا کرڈال دینا اگلے دن پھر اس کو نرم کرناپھر اس میں بیج ڈال دینا۔ پھر روزانہ آپ اس کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔ زمین کو جتنا زرخیز رکھیں گے پودوں کی نشوونما بھی اتنی ہی اچھی ہو گی۔

اس کے لیے ہمیں کیا کرنا پڑے گا دادی جان! دونوں نے پوچھا۔ اس کے لیے آپ کو تھوڑی سی محنت کرنی پڑے گی آپ نے زمین کی کھدائی  کر کے اسے نرم رکھنا ہے اسے کوڈی کرنا کہتے ہیں۔اس نرم زمین میں کھاد ڈالتے رہنا ہے۔میں آپ کو بھی یہ مشورہ دوں گی کہ بازاری کھادوں کی بجائے آپ قدرتی کھاد کا استعمال کریں تو زیادہ فائدہ ہو گا دادی جان نے کہا۔ قدرتی کھاد کیا ہوتی ہے اقصیٰ نے پوچھا

قدرتی کھاد میں آپ کے کچن میں سے ہی مل جاتی ہے آپ کو اس کے لیے زیادہ خرچہ نہیں کرنا پڑتا۔سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے،چائے کی پتی اور اسی قسم کی باقی چیزوں سے زمین کی زرخیزی کو بڑھایا جاتا ہے۔

دادی جان نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ہم اپنے گھر کے گارڈن میں آج سے ایک پودا لگانے کی تیاری کرتے ہیں جو آپ آج یہاں کرو گی کل سکول میں بھی ویسے ہی کر لینا۔جی یہ طریقہ بالکل ٹھیک رہے گا دونوں بچیاں بہت خوش ہو گئیں ۔

دادی جان جو طریقہ گھر پر بتاتی رہی دونوں نے سکول میں اْسی طریقے سے اپنے پودے کی نشوونما کے لیے تیاری کی۔ بہت جلد گھر اور سکول کے لان میں چھوٹے چھوٹے پودے نکل آئے۔ سکول میں وہ تمام بچے بہت خوش تھے جن کے لگائے گئے بیجوں سے پودے نکل آئے۔

سکول کی طرف سے دی گئی مدت ختم ہو چکی تھی اب ایک فنکشن میں اْن تمام بچوں کو انعام دئیے جانے تھے جن طالبِ علموں کے پودوں کی نشوونما اچھی ہو رہی تھی۔

ماہین اور اقصیٰ کو تو اپنے ہی پودے سب سے زیادہ اچھے لگ رہے تھے اور اساتذہ کے خیال میں بھی وہ دونوں انعام کی مستحق تھیں لیکن ایک مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا گیا تھا اور انعام دینے کا حق بھی اْن کو ہی دیا گیا تھا۔انعام ملنے کا دن بھی آگیا تمام بچے اپنے اپنے پودوں کے پاس سکول کے میدان میں جمع تھے۔مسز عطیہ بخاری مہمانِ خصوصی تشریف لائیں سب بچوں نے تالیاں بجا کر اْن کا استقبال کیا۔

جیسا کہ سب کا خیال تھا کہ انعام کی حقدار اقصیٰ اور ماہین ہیں مسز عطیہ بخاری کا بھی یہی فیصلہ تھا۔جب بچیاں انعام لینے سٹیج پر آئیں تو مہمانِ خصوصی نے اْن سے پوچھا کہ آپ نے ان پودوں کی اتنی اچھی نشوونما کیسے کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب اْن کی دادی کی وجہ سے ہوا ہے انہوں نے بہت اچھے طریقے سے پودے لگانے سیکھائے۔

پرنسپل صاحبہ نے بتایا کہ آج وہ آپ کو راز کی بات بتانا چاہتی ہے کہ یہ سکول میں انار کا درخت ہے یہ عطیہ صاحبہ کے ہاتھ سے لگایا ہوا ہے اسی طرح کے اور بھی بہت سے درخت اور بہت سے بچوں نے لگائے تھے جیسے آج آپ نے لگائے جب تک یہ بچے سکول میں رہے انہوں نے ان کا خیال رکھا اور ان کے جانے کے بعد سکول انتظامیہ نے خیال رکھا۔

اقصیٰ نے اپنا انعام دادی جان کو دیا اور کہا کہ یہ آپ کی وجہ سے ملا ہے۔دادی جان بھی بہت خوش ہوئیں امی جان بھی بہت خوش ہوئی اور کہا اب ان پودوں کے درخت بننے تک ایسے ہی محنت کرو۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔