نثری نظم کے محافظ ، عارف عبدالمتین

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


عارف عبدالمتین نے اپنی نثری نظم کا جو لسانی اسلوب تشکیل دیا ہے وہ ان کی انفرادیت کا آئینہ دار ہے

نثری نظم کی وکالت کرنے والوں میں عارف عبدالمتین پیش پیش رہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب نثری نظم کو متنازعہ صنف ادب قرار دیا جارہا تھا۔ جناب احمد ندیم قاسمی نے ہمیشہ نثری نظم کی مخالفت کی اور اپنے مؤقف کی صداقت کیلئے بڑے مضبوط دلائل دیتے رہے۔ نثری نظم کی وکالت کرنے والوں کا استدلال یہ تھا کہ شاعری کی اصل روح تو نفس مضمون (Content) ہے۔ اسلوب تو ظاہر ہے شاعر کا اپنا وضح کردہ ہوتا ہے جو اس کی الگ شناخت کی تعمیر کرتا ہے۔ خیالات و افکار کا وہ سمندر جو ایک شاعر کے دل میں ٹھاٹھیں ما ررہا ہے، پابند شاعری کے تکنیکی لوازمات اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔پھر کیوں نہ شاعری کی فنی اور تکنیکی باریکیوں میں پڑنے کی بجائے ایک ایسی راہ اختیار کی جائے جس میں فنکار کو اپنے احساسات اور جذبات کو بیان کرنے کیلئے کھلا میدان دے دیا جائے۔ شروع شروع میں اس تاثر نے تقویت پکڑی کہ نثری نظم میں شاعری کرنا بہت سہل کام ہے کچھ ہی عرصہ بعد یہ خیال غلط ثابت ہوا اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ نثری نظم میں شاعری کرنا بہت مشکل اور کٹھن کام ہے۔بنیادی سبب یہ ٹھہرا کہ پابند شاعری میں توبعض اوقات عامیانہ موضوعات کو شعر کے پیکر میں ڈال لیا جاتا ہے کیونکہ پابندشاعری خاص طورپر غزل میں عامیانہ مضامین کو ایک کہنہ مشق شاعر تکنیکی اور فنی محاسن کے زیور سے آراستہ کر کے قاری کے لئے اسے قابل قبول بنادیتا ہے لیکن نثری نظم میں ایسا نہیں ہے۔ نثری نظم میں شاعر تجربے کی بھٹی میں پگھلنے پر مجبور ہے کیونکہ نثری نظم کا سارا دارومدار اس کے مواد پر ہے، اسلوب یہاں ثانوی اہمیت کا ہے بلکہ بسا اوقات شاعر کے احساس کی شدت اس کے اسلوب پر غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ احساس کی شدت سے جو لہجہ جنم لیتا ہے وہ لہجہ اسلوب کی راہ متعین کرتا جاتا ہے اور ظاہر ہے وہ لہجہ ہی بھر پور اور توانا ہوتا ہے جس نے تجزیئے کی کوکھ سے جنم لیا ہو۔عارف عبدالمتین کے احساس کے بدن نے عصری آشوب کا لباس پہنا ہے۔ ان کی نظموں کا لہجہ کبھی جارحانہ نہیں ہوا۔ تلخیوں کا زہر پینے کے باوجود عارف صاحب اپنے معتدل مزاج سے جدا نہیں ہوئے۔وہ سچائی کی آبرو کے پاسبان بن کر ابھرتے ہیں۔ منافقت سے انہیں شدید نفرت ہے۔ وہ فرسودہ روایات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کیلئے کمر بستہ رہتے ہیں۔ صداقت کے پرچم کو سربلند رکھنے کے لئے موت سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

عارف صاحب کو عصر حاضر کا سقراط بننے پر فخر ہے 

’’میں سقراط ہوں

ایتھنز کے رب مجھے مجرم قرار دے چکے ہیں

 کیونکہ ان کے نزدیک

میرے خیالات ایتھنز کے نوجوانوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں

نظم ’’میں سقراط ہوں‘‘

عارف صاحب کی نثری نظم فکری توانائی سے اس قدر معمور ہے کہ اس کی شرح کا ضابطہ خود بخود مرتب ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی نظم’’میں سقراط ہوں‘‘ میں ہی کہتے ہیں!

’’مں جانتا ہوں کہ ایتھنز کے رب 

میرے جسم کو تو ابدی نیند سے ہمکنار کرسکتے ہیں

مگر میری روح کی ہلاکت پر قادر نہیں

مجھے یقین ہے کہ میرے افکار کے افق سے نئے اخلاق کا جو سورج طلوع ہو رہا ہے

اس کی کرنوں کے نیزے ایک دن

فرسودہ اخلاق کے اندھیروں کا سینہ چھلنی کردیں گے‘‘۔

ان کی ایک اور نظم ’’سورج میں اور کائنات‘‘ مکمل طورپر تصوراتی تجربے کی عکاس ہے۔ انہوں نے اس نظم کی واقعیت کے عنصر کو قوت متخیلہ سے اس قدر مربوط کیا ہے کہ شاعر کا تجزیہ اس کے ویژن کی حدود سے باہر نکل کر جیتی جاگتی صورت حال کی تشکیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ معنوی اعتبارسے اس نظم کا پس منظر اجتماعی فلاح کی خاطر خود کو فنا کے کنوئیں میں اتارنے کی جستجو ہے۔ سورج نے اگرچہ شاعر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن شاعر نے بھی اجتماعی بقا کیلئے سورج کو نئے سرے سے جوڑا اور سالم سورج کو دوبارہ فضائوں میں اچھال دیا کیونکہ کائنات کواپنی بقا کے لئے اس کی اشد ضرورت تھی۔

اسی طرح ایک اور نظم ’’آسودگی کا میثاق‘‘ بھی عارف عبدالمتین کی حق گوئی اور صداقت سے بے پایاں محبت کا بہت ہی واضح اشارہ دیتی ہے کیونکہ شاعر اپنی صداقتوں کو سماجی تضادات سے ہم آہنگ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اایسا کر بھی نہیں سکتا اس لئے وہ رب کریم سے دعا گو ہے کہ لوگ اس کی صداقتوں کو پرکھیں اور سچائی کی عمارت تعمیر کرنے میں اس کا ساتھ دیں۔

’’اے میرے کرم فرما

مجھے اپنے احساسات کی سچائی کے اظہار پر قائم رکھ

مگر اس اظہار کو حق شناسی کے غرور میں ڈھلنے سے بچا 

اور لوگوں کو میرے احساسات میں شرکت کی توفیق ارزانی کر

تا کہ وہ میرے ہر کشف کی تصدیق کرسکیں اور اسے پا سکیں اور یوں تیرے یہ احساسات 

میرے لئے عذاب کی بجائے آسودگی کا میثاق بن جائیں‘‘۔

اسی طرح نثری نظم کا ایک اور مقبول و معروف اسلوب داستان یا کہانی کا ہے۔ شاعر اس میں اپنے اوپر بیتی واردات کو اپنے احساس اور جذبات کی زبان دیتا ہے۔ اور پھر فکر کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔ اسی طرز کی ایک اور نظم ’’آزادی کا لمحہ ‘‘ میں عارف عبدالمتین کہتے ہیں

’’میں یونان کے ایک آقا کا مفرور غلام ہوں

میں نے زنداں کی دیوار توڑ ڈالی ہے

اور اپنی آزادی کی بازیافت کیلئے وہاں سے بھاگ نکلا ہوں

زندان کے محافظ مجھے دوبارہ گرفتار کرنے کے اراد ے سے 

ہاتھوں میں نیزے اور زنجیریں تھامے

اپنے گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے میرا پیچھا کر رہے ہیں‘‘

 افضال حسین سید ثروت حسین اور جاوید شاہین کی طرح عارف عبدالمتین نے بھی اپنی نثری نظم کو جو لسانی اسلوب تشکیل دیا ہے وہ ان کی انفرادیت کا آئینہ دار ہے۔ عارف صاحب کی نثری نظم براہ راست ابلاغ کی نظم قرار پائی ہے جس کا اسلوب اپنے تندو تیز لہجے اور تلخی بھرے جذبات کے سبب کامل طورپر حقیقت پسندانہ طرز فکر کا آئینہ دار ہے۔

اپنے نہ ہونے کی شہادت پر کھڑا ہوں‘‘

مجموعی طورپر عارف صاحب کی نثری نظم جس تخلیقی تجربے کی حامل ہے اس سے کم از کم ایک نتیجہ تو اخذ کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ ان کی نثری نظم سے ان کی فکری کلیت کی شناخت کرنا ہرگز مشکل نہیں اور یہ حقیقت بلا تامل نثری نظم میں ان کی ارفع حیثیت متعین کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔