کراچی میں بدلتی سیاسی ہوائیں

تحریر : اسلم خان


کراچی میں چھ کنٹونمنٹ بورڈ کے بیالیس وارڈز میں ہونے والے انتخابات نے پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کیلئے توامید کے چراغ روشن کر دیئے ہیں لیکن تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، کلفٹن کے ہوم گرائونڈ پر پی ٹی آئی بمشکل دو نشستیں جیت سکی، چھ کنٹونمنٹ بورڈ میں ایم کیو ایم سکڑ کر تین نشستوں تک محدود ہوگئی، پاک سرزمین پارٹی کیلئے انتخابات ایک اور ڈرائونا خواب ثابت ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے شکست کا بھوت مصطفیٰ کمال سے چمٹ کر رہ گیا ہے، حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر رہی، ٹکٹوں کی تقسیم پر ہونے والے جھگڑے کے اثرات انتخابی نتائج پر نمایاں نظر آئے، تین سیٹوں پر کامیابی مسلم لیگ ن کی قیادت سے زیادہ امیدواروں کی انفرادی کوششوں کے باعث ہوئی۔

انتخابی نتائج نے پیپلز پارٹی رہنمائوں کے حوصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے، 2015 میں پیپلزپارٹی تین نشستوں کے ساتھ صرف کلفٹن کنٹونمنٹ تک محدود تھی حالیہ انتخابات میں کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے دس میں سے چاروارڈز جیت کر وہ اکثریتی جماعت بن گئی ہے، پیپلزپارٹی رہنما اس بات پر زیادہ خوش ہیں کہ تحریک انصاف کو اس کے ہوم گرائونڈ کلفٹن میں مشکلات سے دوچار کردیا ہے، جس علاقے سے صدر مملکت عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسماعیل،رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی، اراکین صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان، شہزاد قریشی سمیت اہم رہنما منتخب ہوئے اور جو علاقہ تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے ، اس میں پیپلزپارٹی نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں ، تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ سمجھے جانے والے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں حکومتی جماعت محض دو نشستیں لے سکی ہے، جماعت اسلامی ،پی ٹی آئی اور آزاد امیدوار بھی دو ، دو نشستیں جیت گئے، انتخابات سے پہلے تاثر تھا کہ تحریک انصاف کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی، لیکن اب یہ قلعہ اس کے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہورہا ہے۔ نتائج سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پوش علاقوں میں پی ٹی آئی کا گراف گرا ہے، تحریک انصاف کی قیادت، امیدوار اور کارکن ان علاقوں میں رہنے والے اپنے ووٹرز اورسپورٹرز کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، ماضی میں اس علاقے کی تاجر برادری، سماجی شخصیات، کھیلوں سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ اہم افراد پی ٹی آئی کے مضبوط سپورٹر رہے لیکن کنٹونمنٹ  بورڈ انتخابات میں بیشتر لاتعلق نظر آئے، ناقدین کہتے ہیں پوش علاقوں میں پی ٹی آئی کا گراف گرنے کی وجہ یہاں سے منتخب ہونے والے صدر، گورنر اور اہم رہنمائوں کا اس علاقے کو نظرانداز کرنا ہے۔ تحریک انصاف شکست کی وجہ انتخابات سے چند ماہ پہلے دیہی سندھ سے ووٹوں کے کنٹونمنٹ بورڈ میں اندراج کو ٹھہرا رہی ہے۔

2015کے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں تحریک انصاف نے تین نشستیں حاصل کی تھیں، حالیہ انتخابات میں اس کی مجموعی نشستوں کی تعداد چودہ ہے اور گیارہ نشستوں پر اس کے امیدوار دوسرے نمبر پررہے ہیں،لیکن یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلی کی تئیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں اس کے حاصل کردہ وٹوں کی تعداد انیس ہزار چار سو تراسی ہے۔

گیارہ نشستیں لینے والی پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جسے کراچی کے چھ کنٹونمنٹ بورڈز میں نمائندگی حاصل ہوگئی ہے اور اس کے امیدواروں نے سب سے زیادہ بائیس ہزار ایک سو پینتیس ووٹ بھی حاصل کئے، دس نشستوں پر اس کے امیدوار رنر اپ رہے۔

جماعت اسلامی کیلئے بھی صورتحال حوصلہ افزاء رہی ہے، 2015 کے کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں کلفٹن اور کورنگی سے ایک، ایک نشست جیت سکی تھی، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں بھرپور انتخابی مہم کے ثمرات پانچ نشستوں جن میں فیصل کنٹونمنٹ ، ملیر کنٹونمنٹ سے دو، دو اور فیصل کنٹونمنٹ سے ایک نشست جیتنے کی صورت میں سمیٹے، ساتھ ہی جماعت اسلامی کے امیدوار چار کنٹونمنٹ بورڈ کی پندرہ نشستوں پر دوسرے نمبر پر بھی رہے ہیں، گویا سب سے زیادہ نشستوں پر جماعت اسلامی کے امیدوار رنر اپ رہے ہیں، ووٹوں کے تناسب سے جماعت اسلامی سولہ ہزار چار سو بائیس ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر ہے۔

 ماضی میں کراچی میں بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کیلئے بدترین صورتحال رہی، گزشتہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں چودہ نشستیں حاصل کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ، دو کنٹونمنٹ بورڈ میں صرف تین نشستیں حاصل کرسکی اور اس کے چار امیدوار رنر اپ رہے، چار کنٹونمنٹ بورڈ میں ایم کیو ایم کاصفایا ہوگیا، انتخابات میں دس ہزار سات سو نوے ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ جواز یہ دیا جارہا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ایم کیو ایم کے گڑھ تصور کئے جانے والے علاقوں میں نہیں ہوئے ہیں اور بلدیاتی انتخابات میں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں، کراچی سے زیادہ ایم کیو ایم کی توجہ حیدرآباد پر نظر آتی ہے اور وہاں کے انتخابی نتائج بھی اس کا ثبوت ہیں۔ 

 مسلم لیگ ن کراچی قیادت کے بحران کا شکار ہے، رہنمائوں کی چپقلش انتخابات سے قبل ہی نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔کنٹونمنٹ بورڈ انتخابی نتائج سے لگتا ہے کراچی کی سیاست میں پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کیلئے راہیں کھلی ہیں اور اب پیپلزپارٹی رہنما چھ سے آٹھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں، دوسری طرف تحریک انصاف نے عوامی مسائل کے حل کیلئے کردار ادا نہ کیا تو آنے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پریشان کن ہوسکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

ڈاکٹر جمیل جالبی اردوادب کی کثیر الجہت شخصیت

ڈاکٹر جمیل جالبی ان بزرگان ادب میں شمار ہوتے ہیں جن کی تشہیر و تکریم ان کی زندگی میں بھی بہت زیادہ کی گئی

اشعار کی صحت!

کالموں میں لکھے گئے غلط اشعار کا تعاقب کرنا اور پھر تحقیق کے بعد درست شعر تلاشنا کسی صحرا نوردی اور آبلہ پائی سے کم ہر گز نہیںہوتا۔ نوآموز قلم کاروں کو کیا دوش دیں کہ ہمارے بزرگ صحافی بھی اکثر و بیشتر اپنے کالموں میں نہ صرف غلط اشعار لکھتے ہیں بلکہ ان ہی غلط اشعار کو اپنی تحریروں میں دہراتے بھی رہتے ہیں۔ کلاسیکل شعراء کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیئے جاتے ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز:کیویز کی آج شاہینوں کے دیس آمد

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 5 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کیلئے آج اسلام آباد پہنچ رہی ہے جبکہ گرین شرٹس کا قومی ٹی ٹوئنٹی سکواڈ بھی آج اسلام آباد رپورٹ کرے گا۔ کیویز کیخلاف شاہینوں کے امتحان کا آغاز چار روز بعد 18 اپریل سے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم سے ہو گا۔

ٹوٹا ہاتھی کا گھمنڈ

پیارے بچو!دور دراز کسی جنگل میں ایک دیو قامت ہاتھی رہا کرتا تھا۔جسے اپنی طاقت پر بے حد گھمنڈ تھا۔جنگل میں جب وہ چہل قدمی کرنے کیلئے نکلتا تو آس پاس گھومتے چھوٹے جانور اس کے بھاری بھرکم قدموں کی گونج سے ہی اپنے گھروں میں چھپ جایا کرتے تھے۔

سورج گرہن کیوں ہوتا ہے؟

سورج گرہن آج بھی مشرقی معاشروں کیلئے کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔اس سے متعلق لوگوں میں طرح طرح کے خوف اور عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

جج: اگر تم نے جھوٹ بولا تو جانتے ہو کہ کیا ہوگا؟ ملزم: جی میں جہنم کی آگ میں جلوں گا۔ جج: اور اگر سچ بولو گے تو؟ملزم: میں یہ مقدمہ ہار جائوں گا۔٭٭٭