حکومت الیکشن کمیشن تناؤ،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

تحریر : سلمان غنی


قومی سطح پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دو حکومتی وزرا وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیرریلوے اعظم سواتی کو نوٹس جاری کرنے کے اقدام نے سیاسی محاذ پر نئی صورتحال کو جنم دیا ہے اور اپنے اس عمل کے ذریعے الیکشن کمیشن نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے چڑھائی پر پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ اپنی ساکھ اور شہرت پر حرف آنے دے گا مذکورہ عمل سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابات کے لیے ناگزیر قرار دینے کا عمل تو پیچھے چلا گیا البتہ بڑا سوال یہ کھڑا ہو گیا کہ حکومت اور خصوصاً وفاقی وزرا الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس طرز عمل کو ہضم کر پائیں گے اور نوٹس کا جواب دیں گے اور اگر اس حوالے سے لیت و لعل برتا جاتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن اس پر کیا پیش رفت کرے گا، ویسے تو وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ انہوں نے ادارے کو ٹارگٹ نہیں کیا،یہ کہا ہے کہ الیکشن کمشنر کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور نوٹس بارے ان کا کہنا ہے کہ نوٹس انہیں ملے گا تو وہ پھر اس پر جواب دیں گے۔

 مذکورہ صورتحال الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ایشو پر انتخابات کی شفاف حیثیت بارے پیش کئے جانے والے 37 نکات پر مؤقف کے باعث پیدا ہوئی جس پر سینیٹ کی مجلس قائمہ میں وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے الیکشن کمیشن پر پیسے کھانے کا الزام لگاتے ہوئے اسے آگ لگانے کی بات کی، بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے مائوتھ پیس کے طور پر کام کر رہے ہیں، جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے اسی روز ہی ان الزامات کے جواب میں دوروز بعد اجلاس طلب کیا اور اجلاس کے ذریعے وفاقی وزرا کو اپنے الزامات کے حوالے سے شواہد پیش کرنے کے لیے کہا۔ قانونی ماہرین تو اس سارے عمل کو اتنا سادہ قرار نہیں دے رہے، ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف الیکٹرانک مشین کا ہی نہیں الیکشن کمیشن میں زیر سماعت فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر مقدمات کا بھی ہے جس پر حکومت پر تلوار پھینک دی گئی ہے اور اب اس ایشو پر الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کر کے دفاعی محاذ پر لانے کی کوشش کی گئی ہے مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والا رد عمل ظاہر کر ر ہا ہے کہ وہ اپنی ساکھ پر حرف آنے کے لیے تیار نہیں اور اسے ابھی عام انتخابات کا چیلنج بھی در پیش ہے لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان پیدا شدہ تنائو کا انجام کیا ہوتا ہے؟

 اس صورتحال سے متعلقہ قانونی حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ حکومت کو اس پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ ایک آئینی ادارے کے طور پر اس کی پسپائی موجودہ حالات میں ریاست کے مفاد میں نہیں اور الیکشن کمیشن آزادانہ کردار کی ادائیگی پر مصر ہے اور ویسے بھی سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمیشن کی تقرری بارے درخواست نمٹا کر پیغام دے دیا اگر حکومت سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ملکی سیاسی تاریخ میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کی کبھی غیر معمولی حیثیت اور اہمیت نہیں رہی ، لیکن موجودہ سیاسی حالات خصوصاً حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تنائو کی کیفیت نے انہیں اہم بنا دیا تھا اور اہم سیاسی جماعتوں خصوصاً حکمران تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم سمیت دیگر نے اپنے امیدوار کی جیت کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور بعد ازاں ان انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی اگرچہ ملک بھر میں ہونے والے ان انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو اب بھی تحریک انصاف ان میں آگے ہے لیکن پنجاب میں خاص طور پر تحریک انصاف کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ شدید مشکل صورتحال اور پارٹی کے اندر بیانیہ کی جنگ کے باوجود مسلم لیگ ن اس میں پہلی پوزیشن پر رہی اور پارٹی کی لیڈر شپ کی جانب سے بھی ان انتخابات میں کوئی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔ خصوصاً لاہور کے محاذ پر سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور سابق سپیکر ایاز صادق متحرک دکھائی دئیے تھے۔ پنجاب کے محاذ پر مسلم لیگ ن کی انتخابی جیت کا بڑا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ ن لیگ مایوسی کی کیفیت سے نکل آئی اور ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نائب صدر مریم نواز اس جیت کو حکمران جماعت تحریک انصاف پر عوام کا یوم اعتماد قرار دیتے ہوئے تحسین کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب میں منعقدہ ان انتخابات کے نتائج کا نوٹس لیتے ہوئے اس انتخابی شکست پر تحقیقات کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنائی ہے جو اپنی لیڈر شپ کو ان عوامل سے آگاہ کرے گی جس بنا پر انہیں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات خصوصاً لاہور، ملتان، راولپنڈی اور پشاور میں انتخابی شکست سے دو چار ہونا پڑا۔

 پنجاب جو مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے وہاں مسلم لیگ ن کی پی ٹی آئی پر سیاسی برتری اہم ہے اور یہ حکمران جماعت کیلئے بڑا سیاسی دھچکا ہے، لیکن خود وزیراعظم عمران خان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ مسلسل بلدیاتی نتخابات کرانے میں سنجیدہ رہے مگر پارٹی کے لوگوں نے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی خصوصاً اراکین اسمبلی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اراکین اسمبلی بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں اصل رکاوٹ رہے ہیں ۔ حکمران جماعت میں یہی ہوا کہ وزیراعظم عمران خان جو بلدیاتی سسٹم میں سنجیدگی کا اظہار کرتے یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ اراکین اسمبلی کا ترقیاتی عمل میں کردار نہیں ہونا چاہیے یہ عمل بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی ممکن بننا چاہیے بعد ازاں وہ اراکین اسمبلی کے دبائو کے سامنے سرنڈر کرتے دکھائی دیئے اور پھر انہیں ترقیاتی فنڈز بھی فراہم کرنے پر مجبور ہوئے۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی یقینی نہ بن سکا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔