پارلیمان کا چوتھا سال ،حکومتی چیلنجز۔۔۔؟

تحریر : خاور گھمن


موجودہ قومی اسمبلی جس میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حکومتی بینچوں پر براجمان ہیں اپنا چوتھا پارلیمانی سال شروع کرنے جا رہی ہے۔ کسی بھی حکومت کیلئے اس کا چوتھا سال ہر لحاظ سے اہم ہوتا ہے۔ حکومت پر میڈیا کی طرف سے تنقید بڑھ جاتی ہے ۔ اس کی کارکردگی پر سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ایسا ہر جمہوری ملک میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے اچھے کاموں کی تشہیر تیز کر دیتی ہے۔

 اگر پارلیمانی سطح پر حکومتی چیلنجز کا احاطہ کیا جائے تو وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کے لیے آنے والے سالوں میں کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کو اگر سامنے رکھیں تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی بھی لیول پر کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت کے سامنے ایک لمبا چوڑا اصلاحاتی ایجنڈا موجود ہے جس کو وہ آنے والے سال میں مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ اور قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں اکثریت کا ہونا ضروری ہے جو کہ حکومت کے پاس موجود نہیں۔ حکومت ان قوانین کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے پاس تو کروا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ایک وقت درکار ہوتا ہے۔ پہلے قومی اسمبلی کسی قانون کو پاس کرے وہ پھر سینٹ کو بھیجا جائے اس کے بعد سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کے پاس دو مہینے اس پر بحث کیلئے موجود ہوتے ہیں اور سینٹ کی کمیٹی کسی نیشنل اسمبلی سے پاس شدہ بل کو رد کرتی ہے تو پھر حکومت کے پاس اختیار موجود ہوتا ہے کہ اس بل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں لے جا کر پاس کروا لے۔

 جیسا کہ حکومت ای ووٹنگ اور بیرون ممالک میں موجود پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حوالے سے قوانین اب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے پاس کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ الیکشن کمیشن میں دو ممبران کی تعیناتی کا معاملہ بھی اب پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی کے سامنے آنا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم عمران خان کے تجویز کردہ ناموں کو اپوزیشن رد کر چکی ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ بھی پارلیمان کے ذریعے ہی حل ہو گا۔ اکتوبر میں چیئرمین نیب کی مدت ملازمت بھی ختم ہو رہی ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو با مقصد مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا مطلب نئے چیئرمین کاتقرر کرناہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے موجودہ چیئرمین کو مزید چار سال دینا چاہتی ہے جیسا کہ نیب کے موجودہ پراسیکیوٹر کو ایک اور ٹرم دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ معاملہ بھی پارلیمان کے سامنے آئے گا۔ سب سے اہم اور عام لوگوں کیلئے فائدہ مند کریمنل اور سول قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے حکومت نے ایک آئینی پیکج تیار کیا ہے اس کیلئے بھی حکومت کو پارلیمان کا ہی رخ کرنا پڑے گا۔ حکومت میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ایک بااختیار اتھارٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کو فی الحال تمام میڈیا کی تنظیمیں کلی طور پر رد کر چکی ہیں۔ یہ کام بھی پارلیمان کے ذریعے ہی ہو گا۔لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ جس طرح کے لڑائی جھگڑے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری ہیں یہ سب کچھ معمول اور پارلیمانی روایات کے مطابق ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟حکومتی ارکان اس حوالے سے پر یقین ہیں کہ وہ ان تمام قوانین کو جلد یا دیر سے پاس کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک سینئر حکومتی وزیر سے جب اس بارے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا تحریک انصاف کوئی بھی ایسا کام نہیں کر رہی جو اس کے انتخابی منشور کے خلاف ہو۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود شدید تناؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور تحریک انصاف کے وزیر کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر اس بارے میں بات ہوئی ہے۔ ہمارے کچھ ساتھیوں کا خیال ہے کہ ہمیں اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ روابط بڑھانے چاہیں۔ ظاہر ہے بہت سارے معاملات میں ان رابطوں کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جب مزید پوچھا تو وزیر موصوف کا کہنا تھا ویسے تو سیاست میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے لیکن پارٹی کے اندر یہ ایک متفقہ رائے پائی جاتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کسی بھی صورت میں شہباز شریف ہوں یا پھر آصف علی زرداری، ملاقات تو دور کی بات وہ ان سے کبھی رسمی طور پر ہاتھ بھی نہیں ملائیں گے۔ یہی پارلیمانی روایت ہے کہ حکومتی بینچز نرم رویہ دکھاتے ہیں لیکن تحریک انصاف نے تمام روایتوں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ لہٰذا اب یہ درد سر حکومت کا ہے کہ وہ کیسے قانون سازی کرتی ہے۔ ہم انکو ہر سطح پر نہ صرف چیلنج کریں گے کے بلکہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ حکومت کوئی بھی قانون پاس نہ کروا سکے۔ ہمیں معلوم ہے کچھ قوانین عام لوگوں کی بہتری کے لیے بننے جارہے ہیں لیکن حکومتی رویے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان قوانین پر بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔

 اسلام آباد میں موجود سیاسی تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا آپس میں لڑنا اختلاف رکھنا ایک فطری عمل ہے اور ایسا ہی جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے۔ لیکن جس انداز سے ہمارے موجودہ سیاستدان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، ایسا لگتا ہے سیاست نہیں پانی پت کی لڑائی ہو رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ایک اچھی خاصی تعداد میں آزاد امیدواروں کا کامیاب ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ لوگ سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں سے متنفر ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ بات سیاستدانوں کو سوچنی ہے کہ وہ ملک میں کیسا کلچر چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کی زیادہ ذمہ داری حکومت کے سر عائد ہو تی ہے۔ لیکن فی الوقت موجودہ سیاسی تناؤ میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی اور اس کا زیادہ نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔