حضرت عثمان الہجویری ؒ کے علمی کارنامے

تحریر : علامہ شاہد المدنی العطاری


جنوبی ایشیا بالخصوص بر صغیر پاک و ہند کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر چہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے اشاعت اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تا ہم بھر پور طریقے سے اسلام کی تبلیغ و تعلیم اولیاء کرام اور صوفیاء عظام کی یہاں تشریف آوری سے شروع ہوئی۔ان بوریا نشینوں نے متاثر کن حکمت عملی کے تحت اسلام کی دعوت اخلاقی ،روحانی اور انسانی بنیادوںپر پیش کی، جس کے باعث لاکھوں غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کر لیا اور ہند میںعظیم اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ عرب، ترکی، افغانستان عراق اور دیگر خطوں سے آنے والے صوفیاء کرام کی کوشش سے دین متین خوب پھیلا۔صوفیاء کرام اس قدر با عمل اور عظیم البرکت تھے کہ ہندو اور غیر مسلم لوگ ان کی زیارت کرتے ہی کلمہ طیبہ پڑھتے اور مسلمان ہو جاتے تھے۔اس سے موجودہ خطے پاکستان، ہندوستان،بنگلہ دیش میں اسلام کو بڑی تقویت ملی۔اسلام کی ابتدائی پانچ صدیو ں میں جن اولیاء کرام اور صوفیاء عظام کے وعظ و تبلیغ سے دین متین کو وسیع بنیا دو ں پر فروغ ملااْن میں مخدوم الاولیاء حضرت عثمان الہجویری رحمتہ اللہ علیہ بڑے نمایاںاور قابل فخر ہیں۔آپ جتنے بڑے صوفی اور ولی تھے اتنے ہی بڑے عالم بھی تھے۔حضرت علی ہجویریؒ یہ حقیقت بخوبی جانتے تھے کہ اصحاب ِصفہ میں سے ہر ایک پاک دیدہ و پاک ہیں ،توکل و رضا کا پیکر تھا۔تاریخ اسلام میںانہی نفوس قدسیہ کو صوفیاء کرام کہا جاتا ہے۔صحابہ کرام اور اصحابہ صفہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر ہستی انہی اوصاف حمیدہ اور فضائل کی آئینہ دار تھی۔

علمی کارنامے :آ پؒ جس طرح بحر طریقت سے روشناس تھے ،اسی طرح قرآن و حدیث اور فقہ پر بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے اور اسرار شریعت سے بھی اسی طرح آگاہ تھے۔اسلامی تصوف کے دور تبع تابعین میں نظری تصوف نے علمی تصوف کی شکل اختیار کر لی تھی۔تصوف نے جب علم کی دنیا میں قدم رکھا تو رموزطریقت اور اسرار حقیقت پر بھی قلم اٹھایا گیا،لیکن اس دَور میں اس موضوع پر جو لکھا گیاوہ عربی زبان میں تھا۔آپؒ کے

 معا صرین میں امام ابو القاسم قشیری نے تصوف کے رموز پر جو رسالہ قشیریہ مرتب کیا اس کی زبان بھی عربی تھی۔فارسی مفتوحین نے جب تصنیف کی دنیا میں قدم رکھا، تو انہوں نے بھی اسی زبان عربی کو اختیار کیا، جس کی تقدیس کا قرآن و احادیث کی زبان سے اندازہ ہو سکتا ہے۔مذہبیا ت میںعربی کے سوا کسی اور زبان کو استعمال کرنا تقدیس کے منافی خیال کیا جاتا تھا۔فارسی نژاد علماء  و فضلائے اسلام کی گراں بہا تصانیف اس پر شاہد ہیںآ پؒ کی مادری زبان بھی فارسی تھی۔ اگرچہ آپؒ کو عربی زبان پر بھی کامل عبور حاصل تھالیکن’’ کشف المحجوب‘‘ عوام کے افادہ کیلئے فارسی میں تصنیف فرمائی۔

آپ کے وصال کو سیکڑوںسال کا طویل عرصہ بیت گیا مگر صدیوں پہلے کی طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے

حضرت عثمان علی ہجویر یؒ چونکہ تصوف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز عشقِ حقیقی سے سرشار فنافی اللہ بْزرگ تھے لہٰذا آپؒکی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی  اورمسلمانوں کی خیرخواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح سے متعلق پھول نظر آتے ہیں۔

  کچھ اقوال اور واقعات

۔کرامت ولی کی صداقت کی علامت ہوتی ہے اور اس کا ظہورجھوٹے انسان سے نہیں ہوسکتا۔

۔ایمان ومعرفت کی انتہا عشق ومحبت ہے اور محبت کی علامت بندگی (عبادت)ہے۔

۔کھانے کے آداب میں سے ہے کہ تنہا نہ کھائے اور جو لوگ مل کرکھائیں وہ ایک دوسرے پر ایثار کریں۔

۔مسلسل عبادت سے مقامِ کشف ومشاہدہ ملتا ہے۔

۔غافل اْمراء ،کاہل (سْست)فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے۔

۔سارے ملک کا بگاڑ ان تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے ،حکمران جب بے علم ہوں،علماء جب بے عمل ہوں اور فقیرجب بے توکل ہوں۔

۔رضاکی دوقسمیں ہیں،خداکا بندے سے راضی ہونا ،بندے کا خدا سے راضی ہونا

۔دنیاسرائے فساق وفجار (گنہگاروں کا مقام)ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبت ِالٰہی ہے۔

۔بھوک کو بڑا شرف حاصل ہے اورتمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہے اس لیے کہ بھوکے کادلذکی(ذہین)ہوتاہے،طبیعت مہذب ہوتی ہے اور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص کھانے کے ساتھ ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کردے تو وہ ریاضت میں اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کرلیتا ہے

۔صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سنتِ رسولﷺ ہو

۔جس کام میں نفسانی غرض آجائے،اس سے برکت اٹھ جاتی ہے

۔دین دار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب و نادار ہوں ، چشمِ حقارت سے نہ دیکھو ۔

۔ایثار یہ ہے کہ تواپنے بھائی کا حق نگاہ میں رکھے اور اس کے آرام کی خاطر خود تکلیف اْٹھائے

۔بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ جوانوں کا لحاظ رکھیںاس لیے کہ ان کے گناہ کم ہیں،جبکہ جوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کا ادب کریں، اس لیے کہ وہ جوانوں سے زیادہ عابد وزاہد اور تجربہ کار ہیں۔

۔فقیر درویش وہ ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو اور کوئی چیز اسے خلل انداز نہ کرے۔ نہ وہ دنیاوی اسباب کی موجودگی سے غنی ہو اور نہ اس کے نہ ہونے سے محتاج ہو۔…جو علم کو دنیاوی عزت اوروجاہت کے لیے حاصل کرتاہے،درحقیقت وہ عالم کہلانے کا ہی مستحق نہیں، کیوںکہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش کرنا بجائے خودجہالت ہے۔

۔ طالب حق کو چاہیے کہ اللہ کے مشاہدے میں عمل کرے، مطلب یہ کہ بندہ (یہ) اعتقاد رکھے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے علم میں ہے اور وہ اس کے افعال کو ملاحظہ فرما رہا ہے۔

پھر ایک جگہ فرماتے ہیں

’’جب تک بندہ اس دنیا میں نفس اور خواہشات ِ نفس کے چنگل سے نہیں نکلتا معرفت سے سر فراز نہیں ہو سکتا۔فرماتے ہیں کہ نفس کی مخالفت تمام عبا دتوں کا سر چشمہ ہے۔نفس کو نہ پہچاننااپنے کو نہ پہچانناہے ،جو شخص اپنے کونہیں پہچانتا،وہ خدا کو نہیں پہچان سکتا۔نفس کا فناہو جانا حق کی بقا کی علامت اور نفس کی پیروی حق عزوجل کی مخالفت ہے۔نفس پر جبر کرنا یعنی نفسانی خواہشوں کو روکنا جہا دِ اکبر ہے۔

آ پ ؒنے تین قسم کے لوگوں سے دور رہنے کی ہدا یت فرمائی ہے۔غافل علما سے ،جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنا لیا ہو۔ریاکار فقرسے، جو فقط اغراضِ نفسانی کے لیے لوگوں سے جاہ وعزت کی تمنا رکھتے ہوں اور جاہل صوفی سے، جس نے نہ تو کسی مرشد کی صحبت میں رہ کر تربیت پائی ہونہ کسی استاد سے ادب سیکھا ہو۔

آپؒکے نزدیک خاموشی کے آداب یہ ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے والا جاہل نہ ہو۔جہالت پر مطمئن نہ ہو اور غفلت میں مبتلا نہ ہو، مرید کو چاہیے کہ رہنمائوں کے کلام پر دخل انداز نہ ہو، اس میں تصرف نہ کرے‘ بے سروپا اور سطحی گفتگو سے پرہیز کرے۔جس زبان سے کلمہ شہادت پڑھا ہے اور اقرار توحید کیا ہے، اسے جھوٹ اور غیبت کے لیے استعمال نہ کرے۔ مسلمانوں کا دل نہ دکھائے۔ درویشو ں کو ان کا نام لے کر نہ پکارے، جب تک اس سے کچھ نہ پوچھا جائے، زبان نہ ہلائے۔ درویش کے لیے خاموشی کی شرط یہ ہے کہ باطل پر خاموش نہ رہے اور بولنے کی شرط یہ ہے کہ بجزحق کوئی بات زبان سے نہ نکالے۔اس میں بے شمارحکمتیں پوشیدہ ہیں۔

ولایت کے بارے میں فرماتے ہیں۔اطاعتِ خدا اوراتباع رسولﷺکے بغیر کوئی شخص ولایت کے مرتبے پر فائز نہیں ہو سکتا۔طریقت شر یعت سے الگ چیز نہیں ہے۔

حضرت علی ہجویریؒ کی یہ سنہری تعلیمات آج بھی عبرت و نصیحت کا خزینہ اور بے مثال درس کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔