ڈالر کی اونچی اڑان ،حکومت پریشان ،ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے قرضوں میں مزید 2 ہزار 900ارب روپے کا اضافہ
پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں۔ نا صرف مہنگائی بلکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر، ملک پر قرضوں کا بوجھ ، درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا فرق اور صنعتوں کا چلتا ہوا پہیہ غرض کہ ڈالر نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جب صنعتیں ترقی کرتی ہیں اور ان کا حجم بڑھتا ہے تو جدید مشینری کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈالر کے بڑھنے کے ساتھ انفراسٹرکچر اخراجات میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے۔ جس میں نمایا پہلو مشینری کی امپورٹ پر اٹھنے والے اخراجات ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے پاکستان میں موجود سب سے بڑی کاروباری منڈی اسٹاک ایکسچینج کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس گو مگو کی کیفیت میں پاکستان اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کر دیا ہے،جو کہ چھوٹی صنعتوں کیلئے نہایت نقصان دہ ہے اور اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر مزید مہنگائی کی صورت میں پڑے گا۔ پچھلے ایک سال میں شرح سود کم ہونے کی وجہ سے زراعت اور تعمیرات سے وابستہ صنعتوں نے ترقی کی جانب جو سفر شروع کیا تھا اس میں جمود آ جائے گا۔پاکستان میں روپے کی قدر کا براہ راست اثر ملکی قرضوں میں 20 فیصد اضافے کی شکل میں پیش آیا ہے۔ محکمہ فنانس کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے سبب پاکستان کے قرضوں میں مزید 2 ہزار 900 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 40 فیصد اضافہ، یورو کی قدر میں 37 فیصد ، پاؤنڈ کی قدر میں 41 فیصد، سعودی ریال کی قدر میں 36 فیصد جبکہ اماراتی درہم کی قدر میں تقریباً 40 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستانی کرنسی جو رواں سال مارچ میں ایشیاء کی سب سے زیادہ مضبوط کرنسی تصور کی جا رہی تھی ، ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کے باعث اب ایشیاء کی سب سے کمزور کرنسی بن گئی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کا سیدھا اثر روپے کی قدر پر پڑتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ سرمایہ کاروں کی جانب سے اسٹاک مارکیٹ سے پیسہ نکال کر ڈالر ذخیرہ کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار میں آنے سے قبل پاکستان اسٹاک ایکسچینج 42 ہزار 810 کی سطح پر تھا۔ تاہم، ٹھیک ایک سال بعد معاشی سست روی کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج گراوٹ کا شکار ہوئی اور ستمبر 2019ء میں 30 ہزار کی سطح پر پہنچ گئی۔ البتہ، اس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی جس کے سبب جنوری 2020ء میں مارکیٹ میں تیزی کے باعث کے ایس ای 100 انڈکس 42 ہزار کی سطح کو عبور کر گیا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں عالمی وباء کورونا نے اس وقت اثر ظاہر کیا جب 26 فروری 2020ء کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ، جس کے سبب کے ایس ای 100 انڈکس 40 ہزار پوائنٹس کی سطح سے 30 فیصد کمی کے ساتھ اپریل 2020ء میں 29 ہزار پوئنٹس پر آ کھڑا ہوا۔گزشتہ سال اپریل میں جب اسٹاک مارکیٹ 29 ہزار پوائنٹس کی سطح پر گر گئی تو اسی دوران ملک میں ڈالر کی قیمت 153 روپے سے بڑھ کر 167 روپے کی سطح کو عبور کر گئی۔ تاہم حکومت کی جانب سے نافذ کردہ کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی جس کے پیشِ نظر پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے بھی تیزی پکڑی اور رواں سال جون میں 48 ہزار پوائنٹس سے تجاوز کر گئی، جس کے بعد اب ایک بار پھرپاکستان اسٹاک مارکیٹ مسلسل گراوٹ کے ساتھ 44 ہزار 871 پوائنٹس پر آ گئی ہے۔
پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پرائس بونڈز کو کیش کرانے کی دی جانے والی ڈیڈ لائن تھی۔ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے سرمایہ کاروں کو 40 ہزار، 25 ہزار اور 15 ہزار روپے کے پرائس بونڈز کو کیش کرانے کی ڈیڈ لائن 30 ستمبر 2021ء تک کی دی گئی تھی، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں نے کیش کرائی گئی بیشتر رقم کے عوض ڈالرز کی خریداری کی جس کے سبب ملک میں امریکی ڈالر کی موجودگی میں کمی دیکھنے کو ملی۔
ملک میں کرنسی کی قدر میں کمی ملک میں قیمتوں کی سطح کو بلند کرتا ہے اور اس طرح افراطِ زر کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی ملکی افراطِ زر میں براہ راست اضافے کا باعث بنتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے حکومت میں آنے سے قبل پاکستان میں 55 ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء درآمد کی گئیں ، جبکہ اس کے برعکس ملکی برآمدات محض 24 ارب ڈالر تک محدود رہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد یہ مؤقف اپنایا گیا کہ اس سے ملک کے برآمدات میں اضافہ ہو گا جس سے ملک کا تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت شاید یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات درآمدی بل میں اضافے کی صورت میں دیکھنے میں آئیں گے، جس سے ملک میں درآمد کیے جانے والے خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔حکومت کا خیال تھا کہ درآمدی اشیاء کی قیمت میں اضافے سے لوگ مقامی طور پر تیار کردہ سامان کی جانب راغب ہو جائیں گے۔ پاکستان سے برآمد کی جانے والی اشیاء کا نصف فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے۔ ان کی درآمدی قیمتوں میں اضافے نے مقامی اشیاء کی پیداواری قیمت میں اضافہ کیا جو کہ ملک میں مہنگائی کی صورت میں نظر آیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات میں تو کمی دیکھنے میں آئی تاہم مالی سال 2021ء میں ملکی معاشی صورتحال میں بہتری کے بعد ایک بار پھر درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کو ورثے میں 30 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ملا، جسے وہ مالی سال 2020ء تک 30 فیصد کم کر کے 21 ارب ڈالر پر لے آئی۔حکومت نے لاتعداد مرتبہ اس بات کا کریڈٹ لیا کہ وہ ملک کا تجارتی خسارہ کم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، البتہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے تجارتی خسارے میں 33 فیصد اضافہ دیکھا گیا جس کی ایک اہم وجہ ملکی درآمدات میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ تھا۔ اسی طرح رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں ملک کا درآمدی بل 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی جانب سے برآمد کی جانے والی اشیاء کی مالیت محض 4.6 ارب ڈالر ہے۔ یوں موجودہ مالی سال کے ابتدائی دو ماہ کے قلیل عرصے میں تجارتی خسارہ 7 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، جو کہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان میں 1.4 ارب ڈالر کی کھانے پینے کی اشیاء ، تقریباً 2 ارب ڈالر کی مشینری،670 ملین ڈالر کی گاڑیاں جبکہ 3 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئیں۔اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے ملک میں بڑھتی ہوئی درآمدات کے باعث ڈالر کی قدر میں اضافے کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
افغانستان میں جاری صورتحال نے بھی ڈالر کی قدر میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے افغانستان کی مالی امداد بند کیے جانے کے باعث افغانستان میں سنگین مالی بحران جاری ہے، جس کے باعث روزانہ اوسطً 5 ملین ڈالر کی رقم پاکستان سے افغانستان منتقل کی جا رہی ہے۔یوں پاکستان میں موجود ڈالرز میں کمی دیکھی جا رہی ہے جو روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں اضافے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
مالی سال 2018ء میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19.9 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح کو پہنچ گیا تھا، جس میں کمی لانے کیلئے حکومت کی جانب سے معاشی اقدامات کیے گئے، جس کے باعث حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں بدلنے میں کامیاب نظر آئی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ملکی درآمدات میں کمی کے باعث ہوئی۔ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو مالی سال 2018ء میں کرونٹ اکاؤنٹ خسارہ 19.9 ارب ڈالر پر تھا، جو مالی سال 2019ء میں 28 فیصد کمی کے ساتھ 13.4 ارب ڈالر پر آ گیا۔مالی سال 2020ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر کم ہو کر 4.4 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ جولائی سے اپریل کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 77 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔ یوں ملک میں 17 برس کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ تھا، تاہم ملکی درآمدات میں اضافے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر براہ راست اثر پڑا جس کے باعث گزشتہ مالی سال 2021ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.8 ارب ڈاکر کی سطح پر ریکارڈ ہوا۔رواں مالی سال کے ابتدائی دو مالی کے دوران پاکستان کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس خسارے میں اضافے کا براہ راست اثر روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں پیش آیا ہے جس سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے دور میں ہونے والی مسلسل مہنگائی کے باعث ملکی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہے، جس کا براہ راست اثر ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے مالی سال 2019ء میں افراطِ زر کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا، تاہم ملکی میں جاری مہنگائی کے باعث افراطِ زر 6.8 فیصد پر رہا۔ اسی طرح مالی سال 2020ء میں بھی حکومت نے افراطِ زر کا ہدف 7 فیصد رکھا، البتہ اس مالی سال بھی افراطِ زر 10.74 فیصد پر رہا۔ حکومت نے اپنے تیسرے بجٹ میں اعلان کیا کہ مالی سال 2021 ء میں ملک میں افراط ِزر کی شرح 6.5 فیصد پر رہے گی البتہ گزشتہ مالی سال میں بھی ملک میں افراطِ زر کی شرح تقریباً 9 فیصد پر رہی۔ رواں مالی سال بھی ملک میں مہنگائی کی شرح 8 فیصد زیادہ ہے جبکہ گزشتہ دنوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیے جانے والے اضافے کے باعث ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کے آنے کا اندیشہ ہے، جس سے روپے کی قدر میں مزید کمی آنے کے امکانات ہیں۔
تیزی سے بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نا صرف ملکی معیشت کیلئے خطرناک ہے بلکہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا بھی اس کے زیرِ عتاب آنے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو فوری طور پر مؤثر اور قابلِ عمل امورٹ پالیسی متعارف کرانی ہو گی جس سے روپے پر موجود دباؤ کم ہو اور حکومت کے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی نہ ہو۔