شان الحق حقی ایک ہنس مکھ انسان ، راست گو آدمی اور دیانت دار افسر تھے :برسی کے موقع پر بیٹے کا خراج عقیدت

تحریر : شایان الحق


میرے والد شان الحق حقی، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی تیرہویں پیڑھی سے ہیں اور ڈپٹی نذیر احمد کے پرنواسے تھے۔ ان کے والد یعنی میرے دادا احتشام الدین حقی بھی ماہر لسانیات، ادیب اور شاعر تھے۔ میرے والد شان الحق حقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یہ تقریب شان الحق حقی کی برسی کے موقع پر منعقد کی گئی تھی جس کی صدارت مشتاق یوسفی نے کی اور اسلم اظہر اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اسلم اظہر جب کراچی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے تو حقی صاحب سیلز کے شعبہ کے جنرل منیجر تھے۔ اسلم اظہر کے میرے والد کے ساتھ کچھ معاملات پر اختلافات تھے۔ اسلم اظہر کے بقول شان الحق حقی نے انہیں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ اشتہارات کو یا تو مناسب وقت پر جگہ نہیں دی جاتی یا انہیں گول کردیا جاتا ہے۔

اسلم اظہر صاحب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 1972ء میں سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو انہیں حقی صاحب کے شعبے کی اہمیت کا احساس ہوا جو کہ ظاہر ہے سرکاری ٹی وی کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھا اور اس آمدنی سے ادارے کے تمام اخراجات پورے ہو رہے تھے۔ اسلم اظہر کا مزید کہنا تھا کہ ان کے شان الحق حقی سے تعلقات بہت اچھے ہوگئے بلکہ انہوں نے حقی صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے حقی صاحب کو نابغہ روزگار قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ایسے لوگ دل میں کوئی بات نہیں رکھتے اور بہت کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ حقی صاحب بھی ایسے ہی آدمی تھے۔

میں نے اپنے والد کو اتوار یا چھٹی والے کسی اور دن کو بھی گھر پر نہیں دیکھا۔ وہ بہت کم سوتے تھے کیونکہ وہ کم سونے کے عادی ہوچکے تھے۔ وہ دن میں 14 سے 16 گھنٹے تک کام کرتے تھے۔ ان پر کام کرنے کی دھن سوار رہتی تھی۔ اس لیے انہیں (Workaholic) بھی کہا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند بار وہ اردو بورڈ سے صبح چار یا پانچ بجے گھر آتے اور مجھے اپنی کار کے انجن کے شور سے جگایا کرتے تھے کیونکہ جس وقت وہ آتے تھے، ہر طرف خاموشی کا راج ہوتا تھا۔ 

پروفیسر سحر انصاری نے ایک بار مجھے بتایا کہ چند مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ جب وہ اور حقی صاحب کسی ادبی تقریب یا مشاعرے سے رات گئے واپس آتے تو مجھ سے (سحر انصاری) چند منٹوں کیلئے اردو بورڈ کے پاس رکنے کی اجازت طلب کرتے۔ انصاری صاحب نے بتایا کہ وہ چند منٹ تین یا چار گھنٹوں میں تبدیل ہو جاتے۔ سحر انصاری نے اس بات کا تذکرہ شان الحق حقی صاحب کے آخری مجموعہ کلام کے تعارفی مضمون میں بھی کیا ہے جس کا عنوان تھا ’’نوائے ساز شکن‘‘۔

میرے والد سنجیدہ انسان لگتے تھے لیکن حقیقت میں وہ بڑے ہنس مکھ شخص تھے۔ ان کی حس مزاح حیران کن تھی۔ ایک دفعہ ہمارا ملازم غفور تین مہینے کی چھٹی پر جانا چاہتا تھا وہ نہ صرف ایک باورچی تھا بلکہ سکیورٹی گارڈ بھی تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہماری والدہ کی غیر موجودگی میں بچوں کا بھی خیال رکھتا تھا۔ میری والدہ کام کرتی تھیں اس لیے انہیں غفور کی اتنی لمبی رخصت پر اعتراض تھا۔ انہوں نے میرے والد سے ان کی رائے پوچھی۔ مجھے یاد ہے اس وقت والد اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے۔ اخبار پڑھنے کے دوران ہی انہوں نے کہا ’’روکو مت جانے دو‘‘۔ پھر انہوں نے والدہ صاحبہ پر فیصلہ چھوڑ دیا۔ 

علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کراچی نے ان کی 75 ویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر والد نے یہ اشعار کہے!

لگتی ہے یہ جنم کی گھڑی سوگوار سی

سینے میں دردِ فرقتِ باراں ہے آج بھی

جو حسرتیں تھیں سب کہیں راہوں میں رہ گئیں

عبرت ہی کل سروساماں ہے آج بھی

یا رب اسے تو موت میرے جیتے جی نہ آئے

مجھ میں جو ایک طفلکِ ناداں ہے آج بھی

میں نے کبھی اپنے والد کو کتاب کے اس صفحے پر نشان لگائے بغیر سوتے نہیں دیکھا جس کا وہ اس وقت مطالعہ کررہے ہوں۔ سوتے وقت وہ بتی نہیں بجھاتے تھے۔ یہ درست ہے کہ وہ بہت کچھ فراموش کردیتے تھے لیکن ایک انسان کی حیثیت سے وہ اپنی ذمہ داریاں کبھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ ایک راست گو آدمی تھے اور ایک دیانت دار افسر بھی۔ اگر ٹیلی فون کا بل تھوڑا سا زیادہ بھی آجاتا تو وہ اپنے خاندان کے افراد سے ناراض ہوجاتے تھے۔ اگرچہ یہ بل اس رقم سے کم ہوتا جس کی انہیں اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے سرکاری سہولیات کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ وہ ہر ضرورت مند کی مدد کرتے۔ انہوں نے ایک شوہر، ایک باپ اور ملک کے ایک شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ مشتاق یوسفی نے ’’او یو پی‘‘ کی انگریزی سے اردو لغت کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کہا تھا کہ ’’اب وہ سانچے نہیں بنتے جن میں حقی صاحب جیسے لوگ ڈھالے جاتے‘‘۔

والد کے انتقال سے دو ماہ قبل میں اگست 2005ء کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے میری اہلیہ سے کہا کہ وہ کمر کی شدید درد میں مبتلا ہیں۔ میری اہلیہ ڈاکٹر ہیں۔ وہ درد ختم کرنے والی گولیاں کھانے سے گریزاں تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان گولیوں کے مضر اثرات (Side Effects) ہوں گے۔ میری اہلیہ نے ان سے کہا کہ وہ درد سے افاقہ کیلئے یہ گولیاں کھا لیں۔ اگلی رات انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے گولیاں (Pain Killer) کھانے کے بعد لغت کے پراجیکٹ پر 16گھنٹے کام کیا۔ ایک ہفتہ بعد جب میں اہل خانہ کے ساتھ جا رہا تھا انہوں نے مجھے ایک پیکٹ دیا جس میں ’’او یو پی‘‘ لغت کے لیے کچھ حروف تہجی کا سیٹ تھا۔ یہ اردو سے انگریزی کی وہ لغت تھی جسے وہ تیار کررہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ درد سے افاقے کیلئے جو دوا انہوں نے کھائی اس کی وجہ سے وہ 15 سے 16 گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ 22 دسمبر کو میں ان کے پاس دوبارہ گیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں ہسپتال کے سرطان وارڈ میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لیڈی ڈاکٹر میرے پاس آئی اور مجھے بتایا کہ حقی صاحب کو دوسری وارڈ میں بھیجا جارہا ہے جہاں انہیں درد سے قدرے آرام ملے گا۔ حقی صاحب نے اس سے پوچھا کہ انہیں اس وارڈ میں کیوں شفٹ کیا جارہا ہے تو لیڈی ڈاکٹر نے کہا قواعد کے مطابق جن مریضوں کی زندگی تین ماہ سے کم ہو انہیں پھر اس وارڈ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کمرے میں بہرا کر دینے والی خاموشی چھا گئی۔ میرے والد کی نظریں سامنے والی دیوار پر گڑ گئیں۔ میں نے ان کے چہرے پر خوف کے آثار نہیں دیکھے البتہ ان کے چہرے پر مایوسی اور بے بسی کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔