وزیراعلیٰ جام کمال کا جانا ٹھہرگیا؟
بلوچستان میں گزشتہ3ہفتوں سے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال اب تک برقرار ہے تحریک عدم اعتماد کے بعد اب صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اب پارٹی صدارت کے معاملے پر بھی دو دھڑوں میں تقسیم نظر آرہی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان جنہوں نے کچھ عرصہ قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا گزشتہ روز پریس کانفرنس میں یہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ دوستوں اور ساتھیوں کی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ واپس لیتا ہوں دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے
ایک مراسلے میں پارٹی کے نائب صدر ظہور بلیدی کو انٹراپارٹی الیکشن تک قائم مقام صدر بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے پارٹی کے مرکزی ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو واپس لئے جانے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اب ظہور بلیدی جبکہ جام کمال ایک کارکن ہیں دوسری جانب ناراض اراکین کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ناراض اراکین اسلام آباد میں اہم مشاورت اور ملاقاتوں کے لئے موجود ہیں جن میں سپیکر قدوس بزنجو،سردار عبدالرحمن کھیتران اور ظہور بلیدی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی فوری طورپر اسلام آباد پہنچے ہیں انکی جانب سے اپنے خلاف کھولے گئے اس محاذ میں کمی یا خاتمے کیلئے مختلف اہم شخصیات سے رابطے کئے جانے کا امکان ہے تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر نمبر گیم پر نظر ڈالی جائے تو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو بلوچستان عوامی پارٹی کے11اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کے اراکین کو ساتھ ملانے کے بعد یہ تعداد24ہو جائے گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے12ناراض اراکین تین اتحادی جماعتوں کے اراکین اور اپوزیشن کے23اراکین کے بعد یہ تعداد 38تک جاپہنچی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اس وقت شدید مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اورانکی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ معاملہ ٹل جائے تاہم اب تک ناراض اراکین کو منانے کے لئے کی جانے والی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے پارٹی کے غیر جانبدار رکن جان جمالی اور نور محمد دومڑ کو منانے کی کوشش کی گئی جو مکمل طورپر ناکام ہوئی13ستمبر کو بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آنے لگے اس وقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہے جس میں ایک طرف ناراض اراکین ہیں جن کی تعداد11ہے جبکہ اتحادی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے2اراکین کی حمایت بھی ناراض اراکین کو ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے 24اراکین کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف یہ تعداد38ہو جائے گی جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے کیمپ میں26ارکان موجود ہیں جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسمبلی میں اکثریت کھوچکے ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کیلئے 33 ارکان کی حمایت لازمی ہے اور اس وقت دونوں جانب سے عددی برتری حاصل ہوجانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تاہم تحریک عدم اعتماد کے جمع ہونے کے وقت ناراض اراکین کے 14 ارکان کے دستخط اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی پوزیشن انتہائی خراب ہے، انکی جانب سے کئی مرتبہ سوشل میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ مطمئن ہیں اور پرامید ہیں کہ تحریک عدم اعتماد سمیت مخالفین کے ہر وار کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائینگے تاہم زمینی حقائق ان کی نفی کرتے نظر آرہے ہیں اور اب تو پارٹی کے سینئر ممبران بھی جام کمال خان کی مخالف صف میں نظر آنے لگے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سات روز کے اندر اندر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا ہے جس میں اس تحریک پر ووٹنگ کی جانی ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر بلوچستان کا سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی ایک نئی شکل اختیار کرنے لگا ہے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے 33 اراکین کی حمایت لازمی ہے جبکہ اس وقت جام کمال کو بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعت کے کارکنان کے علاوہ بھی مزید9افراد کی حمایت حاصل کرنا ہے لیکن دو ہفتوں کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال ناراض اراکین میں سے کسی ایک کو بھی مناکر اپنے کیمپ میں لانے میں کامیاب نہیں ہوپارہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ناراض اراکین کا موقف اس بار بہت مضبوط ہے اور وہ ہر صورت بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کے متحمل ہونا چاہتے ہیں جس کا ثبوت ناراض اراکین کو منانے کی اب تک کی ناکام کوششیں ہیں جس میں ناراض اراکین اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے مائنس جام کمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاہم اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنے منصب پر فائز رہنے میں بضد ہیں تو انکے لئے مستقبل قریب میں بلوچستان عوامی پارٹی میں مزید مشکلات پیدا ہو جائینگی۔