اپوزیشن جماعتیں منتشر، علامتی واک آؤٹ تک محدود

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں جمود کا شکار ہیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی نہیں ہورہی لے دے کر دو سیاسی جماعتیں اے این پی اور جے یو آئی نے کچھ ہلچل مچانے کی کوشش تو کی ہے لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ،اپوزیشن خود منتشر ہے اسمبلی کے اندر اور باہر کہیں بھی اتحاد نظر نہیں آرہا ،موجودہ سیاسی صورتحال اور مہنگائی کی بڑھتی لہر کے باعث حزب اختلاف کی جماعتوں کیلئے حکومت کو ٹف ٹائم دینا کوئی مشکل نہ تھا ،عوام کو بھی سڑکوں پر نکالاجاسکتا تھا،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی لیکن شاید حزب اختلاف اس موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتی ،اے این پی کی جانب سے مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیاگیا

چوک یادگار میں احتجاجی کیمپ لگایا کیمپ میں کارکن تو موجود تھے لیکن رہنما نہیں ایسے میں بزرگ سیاسی رہنما غلام احمد بلور بھی اس احتجاج میں شریک ہوگئے اور کیمپ میں رات گزارنے کا اعلان کردیا ،جس کے بعد دیگر علاقوں سے بھی کارکن یہاں پہنچنا شروع ہوگئے غلام احمد بلور نے ناسازی طبیعت کے باوجود کیمپ میں رات گزاری جس سے اے این پی کے کارکنوں کا بھی حوصلہ بڑھا اگرچہ یہ احتجاج علامتی تھا لیکن اس سے قدرے ہلچل ضرور پیدا ہوئی چاہئے تو یہ تھا کہ یہ کیمپ جاری رہتا اور اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اس میں شرکت کرتے ،ورکرز کو متحرک کیاجاتا اور اے این پی ایک بارپھر پشاور میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی لیکن یہ کیمپ اگلے دن ہی ختم کردیاگیااس سے قبل اے این پی کو شکایت تھی کہ دہشتگردی کے ہاتھوں وہ مسلسل کئی سال سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے ہیں لیکن اب جب موقع آیا ہے تو صوبائی صدر ایمل ولی اور سیکرٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور کے سوا تمام رہنما پردہ سیاست سے غائب ہیں ،اے این پی کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے مناسب پلیٹ فارم پر عوام کے مسائل کیلئے آواز اٹھائے ،جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے بھی مہنگائی کے خلاف صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے لیکن یہ مظاہرے بھی علامتی تھے اور پریس کلب کے سامنے فوٹو سیشن تک محدود رہے اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو خیبرپختونخوا حکومت پر دباؤ ڈال سکے ،سیاسی مفادات پر ذاتی مفادات آڑے آرہے ہیں خیبرپختونخوا حکومت بھی اس صورتحال سے یقینا مطمئن ہے ان حالات میں جبکہ پشاور سمیت متعدد اضلاع میں بجلی اور گیس کا بھی بحران چل رہا ہے انہیں کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ایوان میں بھی اپوزیشن کی کارکردگی علامتی واک آؤٹ تک محدود رہ گئی ہے پی ڈی ایم کے اختلافات اور پھر پیپلزپارٹی اور اے این پی کی اس پلیٹ فارم سے فراغت بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے کی راہ میں آڑے آرہی ہے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) تو اس حوالے سے ایک لفظ کہنے کی بھی روادار نہیں جبکہ جماعت اسلامی کی پالیسیاں ایسی ہیں کہ اس جماعت کے ورکرز خود بھی حیران وپریشان ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں یا اپوزیشن کے، جماعت اسلامی گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنی سمت ثابت نہیں کرسکی ، مرکزی امیر سراج الحق کی توجہ کا مرکز لاہور اور کراچی ہے جماعت اسلامی اس بار کراچی میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے جماعت اسلامی کو ماضی میں انتہائی منظم جماعت سمجھا جاتا تھا اور اس کی ایک کال پر پشاور کی سڑکیں بند ہوجاتی تھیں لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ قصہ پارینہ بن گیا ہے اور جماعتی پالیسیوں کے سبب کارکن بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں اسد قیصر نے چند دن قبل سابق فاٹا کے مسائل کے حل کے حوالے سے قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں بھی شرکت کی اجلاس میں اس بات پر زور دیاگیا کہ سابق فاٹا کے مسائل کے حل کیلئے لوکل گورنمنٹ نظام انتہائی ضروری ہے لیکن ان علاقوں میں اس نظام کی مخالفت سب سے پہلے پی ٹی آئی کے اپنے رہنماؤں نے کی تھی ،اس حوالے سے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیاگیا ہے جس کے کنوینر ڈاکٹر حیدر علی ہیں ورکنگ گروپ کے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد اجلاس ہوچکے ہیں جس میں ان علاقوں میں بجلی اور گیس کی فوری فراہمی کیلئے بات کی گئی ہے اس کمیٹی میں ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، ارکان قومی اسمبلی سمیت دیگر سٹیک ہولڈر بھی شامل ہیں ضم اضلاع کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سو ارب روپے کی سالانہ فراہمی ہے جس کا وعدہ کیاگیاتھا فاٹاریفارمز میں یہ بات شامل تھی کہ تمام صوبے این ایف سی میں سے تین فیصد حصہ قبائلی اضلاع کو دیں گے وفاق بھی اس میں حصہ ڈالے گا لیکن بعدازاں سندھ،پنجاب اور بلوچستان نے اس سے انکار کردیا،بلوچستان اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے لیکن وہ ان سے اپنی باتیں منوانے میں ناکام رہے ،سابق فاٹا کیلئے تشکیل دی گئی ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس حوالے سے تمام صوبوں سے بات کی جائے گی ،یہ ورکنگ کمیٹی پینتالیس دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کیلئے تین گروپس تشکیل دیئے گئے ہیں ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں قومی اسمبلی میں ضم اضلاع کی نشستیں بڑھانے کے حوالے سے بھی تجویز سامنے آئی ہے اس حوالے سے ایک بل پہلے ہی پارلیمنٹ میں پیش کیاجاچکا ہے تاہم اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ،  وفاقی وزیر نورالحق قادری کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ سابق فاٹا میں مردم شماری کو ڈیفیکٹو بنیاد پر کیاجائے ،ضم اضلاع کے حوالے سے سپیکر اسد قیصر کی یہ کوشش خوش آئند ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان اجلاسوں کے بامقصد نتائج بھی سامنے آئے ہیں ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔