سول ملٹری تعلقات :اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
ویسے تو پاکستانی میڈیا میں ہر طرح کی خبریں مختلف اوقات میں ترجیحی بنیادوں پر چھپتی رہتی ہیں۔کبھی سیاست اپنے زوروں پر ہوتی ہے تو کبھی کرپشن سکینڈل دن رات ٹی وی سکرینز پر چھائے رہتے ہیں اور اخبارات کی زینت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک سٹوری جس میں بالخصوص میڈیا اور بالعموم عوام کی ہمیشہ سے دلچسپی رہتی ہے۔ وہ ہے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کی نوعیت۔ مطلب سول او عسکری لیڈرشپ کے درمیان آج کل کیا چل رہا ہے اس حوالے سے میڈیا اور عوام ہر وقت کچھ نہ کچھ ضرور سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔
گذشتہ ہفتہ اس حوالے سے میڈیا ہر طرح کے سازشی نظریات کی زد میں رہا۔ ایسی ایسی خبریں سننے کو ملیں جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی کے ابھی پاکستان کاموجودہ سیاسی نظام لپیٹ دیا جائے گا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ دونوں اطراف میں مختلف غیر معمولی آپشنز زیر غور ہیں جن پر کسی بھی وقت عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اور یہ سب کچھ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے پس منظر میں لکھا اور پڑھا جا رہا تھا بلکہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ہو یا پھر نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا ، ایسی خبریں ہمیشہ سے پاکستانی میڈیا کی خاص توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ لہٰذا یہ دلچسپی کوئی غیر معمولی نہیں اس میں کوئی دو رآراء نہیں کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ سے ایک کردار رہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن کا زیادہ تر تعلق ہمارے جیو گرافیکل پس منظر سے ہے۔ صحیح یا غلط اس پر بحث کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ایک سٹوری جس کو بڑے تواتر کے ساتھ میڈیا میں خاص طور پر سوشل میڈیا میں بڑی شدومد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنائوہے اور اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں نکل سکتا ہے۔ کچھ دل جلوں نے تو اس کو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے پیش خیمہ کے طور بھی پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔
کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ اس بارے جاننے کے لیے ہمارے اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود مختلف باخبر ذرائع سے بات ہوئی۔ سوال ایک ہی تھا کہ وزیراعظم عمران خان جن کے پاس نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا اختیار ہے ان کو بغیر بتائے نئی تعیناتی کا اعلان کر دیا گیا تھا؟ جیسا کہ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے۔ اس بارے میں جب تحریک انصاف کے چند زعماء سے رابطہ ہوا تو انہوں نے اس بات کا اعتراف ضرور کیاکہ نئے ڈی جی کی تعیناتی کے حوالے سے چند ایشوز ضرور سول اور عسکری لیڈرشپ کے درمیان زیر بحث رہے ہیں جو کہ procedural نوعیت کے تھے جن کا حل نکال لیا جائے گا۔ اب کو ئی مسئلہ نہیں اور عسکری قیادت کی طرف سے اعلان کردہ تمام تعیناتیاں اپنے اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہوجائیں گی۔ کابینہ کو وزیراعظم کی طرف سے یہی بتایا گیا ہے ان کے آرمی چیف کے ساتھ تعلقات مثالی ہیں اور نوٹیفیکیشن کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں تھا جتنا اس حوالے سے میڈیا پر شور سنائی دے رہا ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ جو دھول اڑائی گئی یا پھر جائز طور پر نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو لے کر اڑتی دکھائی دی وہ اب سیٹل ہو گئی ہے ؟،اس سوال کے جواب میں تحریک انصاف کے با خبر ذرائع کے مطابق نوے فیصد معاملہ حل ہو چکا ہے باقی دس فیصد بھی جلد حل ہو جائے گا۔ وہ دس فیصد کیا معاملہ ہے جو ابھی حل ہونا باقی ہے اس پر جواب یہی ملا کہ یہ procedural نیچر کا ایشو ہے وہ بھی حل ہو جائے گا۔ لیکن ایک بات جو تحریک انصاف کے لوگوں سے بات کر پتہ چلی وہ یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر کچھ نہ کچھ مس کمیونیکیشن ضرور ہوئی ہے۔ اس مس کمیونیکیشن کی وجہ اسلام آباد بنا یا پھر راولپنڈی والے لیکن ہوا کچھ ضرور تھا ۔ جس کی وجہ سے ہمارے چند صحافی دانشوروں کو کھل کر سوشل میڈیا پر کھیلنے کا موقع ملا۔ وفاقی کابینہ کے ایک رکن سے جب اس بابت بات ہوئی تو ان کا ماننا تھا کہ جو یہ سب کچھ ہوا ہے، ہر گز ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان میں پہلے مسائل کم ہیں جو اس طرح کے انتہائی سنجیدہ نوعیت کے معاملات بھی میڈیا کی زینت بنیں گے۔ اس سارے قصے کے ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے۔اس حوالے سے اسلام آباد میں موجود سیاسی تبصرہ نگاروں کی رائے ابھی تک منقسم لگتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس معاملے کی نوعیت جو بھی ہو حل ہو جائے گا۔ موجودہ حالات کو اگر سامنے رکھیں تو وزیراعظم عمران خان اورتحریک انصاف غلط یا صحیح اس نوعیت کا تناؤ افورڈ نہیں کر سکتی۔ پچھلے تین سالوں میں دونوں اطراف نے ہر معاملے کو باہم صلاح مشورے سے حل کیا ہے۔ تو کیونکر ممکن ہے وزیراعظم عمران اپنی حکومت کے مشکل ترین دور کے موقع پر اس تنازع میں الجھیں گے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب سول ملڑی تناو ٔکا انجام کچھ اچھا نہیں نکلا۔ خاص طور پر نواز شریف کے تمام ادوار کا انجام سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان کی شکل میں نکلا ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان اس ٹکراؤ کی طرف نہیں جائیں گے۔ اس نقطہ نظر کے بر عکس رائے رکھنے والوں کا خیال ہے جب اس نوعیت کی بدظنی پیدا ہو جاتی ہے جو بظاہر ہمیں آنے والی خبروں سے اشارے مل رہے ہیں تو پھر حالات کو واپس لانا، اعتماد بحال کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ اب دیکھنا یہی ہوگا کہ آیا عمران خان ماضی سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں یا پھر نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔