اتباع مصطفیٰ ﷺ کی برکات ،آپ ﷺ کا پیروکار اللہ تعالیٰ کا مجبوب ہے

تحریر : پروفیسر نصیر احمد


’’اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (آل عمران: آیت31)محبت ایک مخفی چیز ہے کسی کو کسی سے محبت ہے یا نہیں اور کم ہے یا زیادہ، اس کا کوئی پیمانہ بجز اس کے نہیں کہ حالات اور معاملات سے اندازہ کیا جائے۔ محبت کے کچھ آثار اور علامات ہوتی ہیں ان سے پہچانا جائے، یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار اور محبوبیت کے متمنی تھے وہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان آیات میں اپنی محبت کا معیار بتایا ہے۔ یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ اس کو اتباعِ محمدیﷺکی کسوٹی پر آزما کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے میری اتباع کی تو بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو بے شک اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘۔ (بخاری: 2957)

اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت رسول پاکﷺ کی اتباع اور آپﷺ کی پیروی کرنا ہے۔ جو آپﷺ کا پیروکار ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور جو آپﷺ کی پیروی سے محروم ہے وہ اللہ کی محبت سے محروم ہے۔ محبت الٰہی کے دعویٰ کی جانچ کے لیے کیا اچھا معیار بتادیا گیا یعنی اتباع رسولﷺ جو شخص جتنا زیادہ متبع رسولﷺ ہوگا اسی قدر اس کی محبت الٰہی مسلم و معتبر ہوگی۔

 مخلوق کے کمال کی معراج یہ ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرے اور اللہ کی ان پر عنایت یہ ہے کہ وہ ان سے محبت کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے حصول کے لئے تمام مخلوق پر یہ واجب کردیا ہے کہ وہ حضرت محمدﷺکی اتباع اور آپﷺ کی اطاعت کریں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر موسیٰ تمہارے سامنے زندہ ہوتے تو میری اتباع کرنے کے سوا ان کے لئے کوئی امر جائز نہ ہوتا‘‘( صحیح بخاری: 3449)   جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی حضرت محمدﷺ  کی اتباع واجب ہے تو جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب اور ان کے اُمتی ہیں ان پر تو حضرت محمدﷺ کی اتباع واجب ہوگی۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا تو وہ بھی آپﷺ کی شریعت کی اتباع کریں گے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوگا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین،اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘(صحیح بخاری: 15)۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا۔ یہ کہ اسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں، اور وہ جس شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لئے محبت کرے اور اس کے نزدیک کفر میں لوٹنا آگ میں ڈالے جانے کی طرح مکروہ ہو۔(صحیح بخاری: 16)۔

حضور ﷺ کا خلق عظیم

نبی مکرم، نور مجسم ﷺ کا حسن معاشرت اور خوش خلقی بے مثال تھی۔حضرت انسؓ حضور ﷺکے خادم خاص تھے، ان کا بیان ہے کہ آٹھ برس کا تھا جب خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور دس برس تک شرف یاب ملازمت رہا۔ اس  مدت میں نبی کریم ﷺ نے کبھی مجھے اُف تک نہ کہا۔آپ ؓکے بقول رسول اللہ ﷺکی زبان اقدس سے کبھی کوئی فحش بات نہیں نکلی تھی اور نہ ہی آپﷺ کسی پر لعنت کرتے تھے۔

 آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر نہایت مہربان اور بے انتہا شفیق تھے۔ آپ ﷺکو بچوں سے بھی بہت محبت تھی۔ آپ ﷺکے اپنے نواسے نواسیوں کا نماز کے اندر ہی آپ ﷺکے کندھوں پر سوار ہونا، گود میں آجانا، نماز میں آپ ﷺکا ان کو اٹھا لینا وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔

آپ ﷺمجسمہ بھلائی اور خیر تھے اور ہر بھلائی اور خیر آپ ﷺمیں بدرجہ اتم موجود تھی۔آپ ﷺکی طبیعت کا اصل میلان اور آپ ﷺ کے خلق کریم کا صحیح نمونہ ضبط نفس، بردباری اور حلم کے موقعوں پر نظر آتا ہے۔  جنگ احد میں حضورﷺ  زخمی ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے ان حالات میں عرض کیا کہ کاش آپﷺ مشرکین   کی ہلاکت کی دعا فرمائیں۔ لیکن نور مجسم ﷺ نے ان کو جواب دیا کہ میں لعنت اور بددعا کے لئے نہیں آیا، رب ذوالجلال نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔

ایک بار طفیل بن عمروؓ نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ قبیلہ دوس نافرمانی اور سرکشی کرتا ہے اور اسلام لانے سے انکاری ہے، آپﷺ ان کے حق میں بددعاکیجئے۔ رحمت کائناتﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور ان کے راہ راست پر آنے کی دعا کی۔

نبی مکرم ﷺ نہایت ہی رحیم المزاج واقع ہوئے تھے،بڑے سے بڑے دشمنوں کو بھی معاف فرما دیتے تھے۔ قریش مکّہ سے زیادہ دشمن آپﷺ کے اور کون تھے؟ لیکن جان رحمتﷺ نے سب کو معاف کر دیا۔ 

آپﷺ کی طبعی فیاضی کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باروایت جابر بن عبداللہؓ کبھی زبان فیض ترجمان سے کسی سائل کے لئے بھی ’’نہیں‘‘نہیں نکلا۔ بلا شبہ نبی اعظم وآخر ﷺکی زندگی کا اصل اصول ہی ایثار تھا۔

آپ ﷺ امت پر عبادات کا بار بھی بہت کم ڈالنا چاہتے تھے چنانچہ آپﷺ خود اسی خیال سے نوافل پر مداومت نہیں فرماتے تھے کہ کہیں لوگ ان عبادتوں کو اپنے اوپر لازم نہ کرلیں اور یوں تکلیف میں نہ پڑجائیں۔

(پروفیسر نصیر احمد اسلامی سکالر اور صدر شعبہ اسلامیات گورنمنٹ ایم اے او کالج ہیں)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔