وہ دانائے سبل ،ختم الرسل، مولائے کل ﷺجس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
سرور کونین ﷺکی آمد سے عرب سے جہالت کے اندھیرے چھٹےآپ ﷺ کی تعلیمات کی بدولت خون کے دشمن بھائی بھائی بن گئے،اللہ نے آپ ﷺ کو تما م جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجاآپ ﷺ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی معاف فرما دیا کرتے تھے
چاند چمک رہا ہے، ستارے کھِل رہے ہیں، نور کی پھوار پڑرہی ہے، ایک ندا دینے والا ندا دے رہا ہے، ’’لوگو!صدیوں سے جس کا انتظار تھا دیکھو آج وہ طلوع ہو گیا‘‘ وادی مکہ کے سناٹے میں یہ آواز گونجی۔ سب حیران ہیں کہ ماجرا کیا ہے، کس کا انتظار ہے، کون آ رہا ہے، سونے والو جاگ جائو آنے والا آگیا، نور کی چادر پھیل گئی۔ شام کے محلات نظر آنے لگے، سارے عالم میں اجالا ہو گیا۔ ہاں یہ کون آگیا، سویرے سویرے آپﷺ کیا آئے رحمت کی برکھا آگئی، نور کے بادل چھا گئے، دور دور تک بارش نور ہو رہی ہے، حد نظر تک نور کی چادر تنی ہے، عجب سماں ہے، عجب منظر ہے، ایسا منظر تو کبھی نہ دیکھا تھا، تاریکیاںچھٹ گئیں، روشنیاں بکھر گئیں، جدھر دیکھو نور ہی نور ہے، بہار ہی بہار، تازگی انگڑائیاں لے رہی ہے، مسرتیں پھوٹ رہی ہیں، رنگینیاں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ سار ا عالم نہایا ہوا ہے، ذرے ذرے پر مستی ہے، یہ اُجلا اُجلا سماں، یہ مہکی مہکی سی فضائیں۔ یہ مست مست ہوائیں جھوم جھوم کر جشن ولادت کے گیت گا رہی ہیں۔
برسوں کی ہتھکڑیاں کٹ گئیں، صدیوں کی بیڑیاں ٹوٹ گئیں، گھٹی گھٹی سی فضائیں بدل گئیں، مندی مندی سی آنکھیں روشن ہو گئیں، ڈوبتے ہوئے ابھرنے لگے، سہمے ہوئے چہکنے لگے۔ صدیوں کے دبے ہوئے، پسے ہوئے سرفراز ہونے لگے، خون کے پیاسے محبت کرنے لگے۔ زندگی نے ایسا سنگھار کیا کہ سب جھانکنے لگے، سب دیکھنے لگے، سب تکنے لگے، سب بلائیں لینے لگے، سب فدا ہونے لگے، سب آپﷺ کی آرزوئیں کرنے لگے۔ وہ کیا آئے کائنات کا ذرہ ذرہ دلکش و دل ربا معلوم ہونے لگا۔
آج آپﷺ کی آمد کا دن ہے، آج عید کا دن ہے، آج خوشی کا دن ہے۔ آپﷺ کی ولادت باسعادت سے ایسا انقلاب آیا جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایسی بہار آئی کہ کبھی خزاں نہ آئے گی، عاشقوں اور مومنوں پر خدا نے کرم کردیا اور بے شک آپﷺ کی جلوہ گری اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی نعمت حضور سرور کائنات ﷺ کی ولادت مبارکہ اور بعثت طیبہ ہے۔
آپ ﷺ کی تشریف آوری پر مسرت و شادمانی کا اظہار،آپﷺکے حالات وکمالات، فضائل و معجزات کو بیان کرنے کا نام عید میلادالنبیﷺ ہے جو مسلمانوں کی حقیقی عید ہے ۔اسی لئے ہم ہر سال میلاد النبی ﷺ جوش وخروش اور بھرپور ولولہ ایمانی کے اظہار کے ساتھ مناتے ہیں۔
آپﷺ کی یاد سے دل معمور ہو تو یہ دل کی حیات ہے۔ آپ ﷺ کی اشتیاق دید میں آنکھیں نمناک ہوں تو یہ بصارت کی جلاء ہے۔ آپ ﷺ کے ذکر و فکر میں حواس وخرد مخمور ہوں تو یہ شعور وادراک اور دانش و بینش کی تنویر اور چمکتی روشنی ہے۔ یہیں سے دراصل صراط مستقیم نمودار ہوتی ہے۔ جس سے انسان کا سفر ہستی کامیابی سے طے ہوتا ہے۔
اس جگہ یہ حقیقت بھی کسی شک وشبہ سے آلودہ نہیں کہ اگر ایمان مدار نجات ہے تو اعمال صالحہ موجب درجات ہیں۔ انسان کے لئے محض نجات پا لینا وصف کمال نہیں ہے بلکہ نجات کے ساتھ درجات عالیہ پر فائز ہونا عظمت انسان کے لئے نا گریز ہے۔ بس یہی پہلو مسلم اُمہ کا کمزور وناتواں بھی ہے اور ناقص و ناتمام بھی۔ یہی حرج اور قباحت ہے جو ہمارے ایمان کو ثمر بار نہیں ہونے دیتی۔ اس کجی اور کمی کے سبب دنیا میں ہم اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاتھ ہیں مگر دست نگر ہماری عقل ہے، مائوف اور ہپناٹائزڈ دل ہے۔
یوم میلاد اصل میں تجدید میثاق کا مبارک دن ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’ماثبت بالسنہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ شب میلاد مبارکہ لیلتہ القدر سے بلاشبہ افضل ہے۔ اس لئے کہ میلاد کی رات حضور اکرمﷺ کی جلوہ گری ہوئی اور شب قدر حضورﷺ کو عطا کی گئی۔ جس رات کو ذات مقدسہ سے شرف ملا، اُس رات سے ضرور افضل قرار پائے گی جو حضور کو دیئے جانے کی وجہ سے شرف والی ہے۔
میرے حضورﷺ رحمتہ اللعالمین ہیں، جن کی وجہ سے اللہ کی تمام خلائق اہل السموات و الارضین پر عام ہو گئیں۔ نبی پاکﷺ کی پیدائش کے وقت ابولہب کی لونڈی ثویبہ نے آکر ابولہب کو خبر دی کہ تیرے بھائی عبداللہ کے گھر فرزند پیدا ہوا ہے۔ ابولہب نے سن کر خوشی میں انگلی کے اشارے سے کہا ثویبہ آج سے تو آزاد ہے۔ سب مسلمان جانتے ہیں کہ ابو لہب اسلام کا دشمن اور مشہور کافر ہے، قرآن مجید کی پوری سورۃ اس کی مذمت میں موجود ہے مگر حضور پاکﷺ کی ولادت کی خوشی کا فائدہ اسے مرنے کے بعد ہوا۔ اس کے مرنے کے بعد حضرت عباسؓ نے خواب میں اسے بہت بری حالت میں دیکھا اور اس سے پوچھا مرنے کے بعد تیرا کیا حال ہوا۔ ابولہب نے کہا کہ تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اس کے کہ (حضورﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے۔ غور فرمائیے قارئین ابو لہب کافر تھا ، اس نے آقا ﷺ کو بھتیجا سمجھ کر ولادت کی خوشی منا کر لونڈی کو آزاد کیا۔ ہم تو سرکارﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ ان کے غلام و امتی ہیں اگر ہم سرکار کائناتﷺ کی ولادت کا جشن مناتے اور اظہار مسرت کرتے ہیں تو ہم پر خدا کتنا راضی ہو گا۔
حضور پاکﷺ کی ولادت باسعادت سے قبل پوری دنیا کی بالعموم اور دنیائے عرب کی بالخصوص حالت بہت خراب تھی، لوگ خدا کی عبادت چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ خانہ خدا، بت خانہ بنا ہوا تھا۔ قتل و غارت گری عام تھی، شراب نوشی، جوا، بدکاری کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا۔ ان تشویشناک حالات میں اللہ کی رحمت جوش میں آئی اوراللہ نے اپنے لاڈلے محبوبﷺ کو تما م جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔حضورﷺ سارے جہانوں کیلئے رحمت ہیں اور تمام مخلوق آپﷺ کی رحمت سے بہرہ ور ہے۔ اس کی کچھ مثالیں آپ کی نذر کرتا ہوں۔
آپﷺ کی تشریف آوری سے قبل لوگ ذرا ذرا سی بات پر تلوار نکال لیا کرتے تھے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کا، ایک خاندان دوسرے خاندان کے خون کا پیاسا تھا۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد دنیا نے اس منظر کو بھی دیکھا کہ ایک دوسرے کے خون کے یہ پیاسے اور بات بات پر ایک دوسرے کے خلاف تلوارنکالنے والے رحمتہ اللعالمین ﷺ کی اعلیٰ تعلیمات سے متاثر ہو کر آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اسلام نے ان کے دلوں کی تفریق کو یکسر مٹا دیا اور ان میں باہمی اتحاد پیدا کردیا۔
حضورﷺ اپنی امت پر انتہائی شفیق اور مہربان ہیں۔ امت کی ہر تکلیف آپﷺ کے دل اقدس پہ گراں گزرتی ہے۔ حضورﷺ کو اپنی امت کی تکالیف کا ہر وقت خیال رہتا۔
شب معراج جب حضورﷺ دیدار الٰہی سے مشرف ہوکر وا پس ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پوچھا کہ اے اللہ کے محبوب ﷺ بارگاہ الٰہی سے کیا ملا، آپﷺ نے فرمایا ہر روز پچاس نمازوں کا حکم ملا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! آپؐ کی امت پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکے گی، اپنی اُمت پر بوجھ ہلکا کرائیں۔ چنانچہ آپﷺ بار بار بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتے رہے اور نمازیں کم کراتے رہے یہاں تک کے پانچ نمازیں رہ گئیں۔ اُمت مسلمہ پر سرکار ﷺ کی شفقت کا اندازہ لگایئے کہ ُامت کی آسانی کے لئے نمازیں پچاس سے پانچ کروائیں۔
انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سورج کی طرح روشن ہو جائے گی کہ دور قدیم میں جب کسی امت نے اپنے نبی کی نافرمانی کی، اللہ کے احکامات کو جھٹلایا وہ قوم اللہ کے قہر و غضب کا شکار ہوئی۔ کسی نا فرمان اُمت پر آسمان سے پتھر برسائے گئے تو کسی پر طوفان غضب الٰہی بن کر آگیا۔کسی قوم پر ایسی آندھی آئی کہ ان کے بڑے بڑے مکانات تباہ و برباد ہوگئے اور وہ قوم ملبہ کے ڈھیر میں دب کر ہلاک ہوگئی۔ لیکن حضور ﷺ چونکہ ساری کائنات کیلئے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے ہیں لہٰذا آپﷺ کے وجود اور موجود ہونے کی برکت سے کفار دنیاوی عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔
اعلان نبوت کے دسویں سال حضور ﷺ تبلیغ کی غرض سے طائف تشریف لے گئے۔ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ ان ظالموں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے سخت مخالفت کی۔ آپﷺ کی شان میں نا زیبا الفاظ کہے۔ آوارہ اور اوباش قسم کے لوگوں نے آپﷺ پر پتھر برسائے۔ جس سے آپﷺ کے جسم اطہر سے خون بہنے لگا مگر آپﷺ نے پھر بھی ان کو بددعا تک نہ دی۔
طلوع اسلام سے پہلے انسان انسان کا غلام بنا ہوا تھا۔سرکارِ دو عالم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد انسانوں کو غلامی کی زندگی سے چھٹکارا ملا۔
آپﷺ کی آمد سے قبل بچوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، آپﷺ کی تشریف آوری سے عرب میں اس منحوس روایت کا خاتمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ’’اور تم اپنے بچوں کو مفلسی کے ڈر سے مت ہلاک کرو، ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں‘‘ (سورہ انعام ،ع19)
اسلام سے قبل عورتوں کی حیثیت انتہائی حقیر تھی، سرکاردوعالمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد زمانے کی ٹھوکروں میں روندی جانے والی اس مخلوق کو وہ بلندی ملی جو دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملی۔
آقا ﷺکی ولادت باسعادت کا دن خوشی منانے اور مسرت شادمانی کا دن ہے، ہر دور میں خوشی منائی جاتی رہی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے اپنے نبی پاکﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کونسی خوشی ہو گی جو اس کیلئے فلاح کا ذریعہ بھی ہے۔ اہل ایمان ہر دورمیں12 ربیع الاول کو عید اور خوشی کا دن سمجھتے ہیں اور اس تا ریخی دن کو بڑے تزک واحتشام سے مناتے ہیں۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی معروف اسلامی سکالر ہیں، مذہبی امور پر آپ کے مضامین اور کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں)