سیاسی جوڑ توڑ عروج پر، تحریک عدم اعتماد پیش
بلوچستان میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری سیاسی بحران اور غیر یقینی صورتحال کا اب فیصلہ کن موڑ آن پہنچا ہے۔ جام کمال خان وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان رہیں گے یا پھر ناراض اراکین کی حکمت عملی کام کر جائے گی اسکا فیصلہ 25 اکتوبر تک ہوجائے گا۔ البتہ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد 20 اکتوبر کو بی اے پی ، ان کے اتحادیوں اور متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی میں پیش کردی ہے ۔جس پر ووٹنگ 25 اکتوبر تک ہوگی۔ ایک بڑا بریک تھرو سیاسی حوالے سے یہ رہا کہ ناراض اراکین نے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کیلئے اپنے پتے شو کرادیئے۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی رہائش گاہ پر گزشتہ رات خاص عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مجموعی طور پر36 اراکین شریک ہوئے جس میں 14 ناراض اراکین اور اپوزیشن جماعتوں کے22اراکین شامل تھے ۔اس عشائیے میں ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد میں انہیں 40 اراکین کی حمایت حاصل ہو گی۔ کیونکہ صوبے کے دو سابقہ وزرائے اعلیٰ، آزاد رکن اسمبلی نواب اسلم رئیسانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نواب ثناء اللہ زہری بھی ناراض اراکین کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ ’’ اب بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس وقت ہے۔ خود ہی مستعفی ہوجائیں نہیں تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کرسی سے ہٹادیا جائے گا‘‘۔
اسی دوران جب ناراض اراکین کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا تو وزیراعلیٰ بلوچستان اور ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی بذریعہ ٹوئیٹر اس دعو ے کو خام خیالی قرار دے رہے تھے۔ لیاقت شاہوانی کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان مستعفی نہیں ہونگے اور بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز وہ اپنی اکثریت ثابت کرینگے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’’ ناراض اراکین ایک مخصوص ایجنڈے پر کارفرماہیں ۔جلد ہی ان کے اصل مقاصد سامنے آجائیں گے‘‘۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بظاہر تو اپنا اعتماد کھوچکے ہیں اور نمبر گیم کے مطابق انہیں ناکامی ہو سکتی ہے۔ اب تک حکومت کی جانب سے یہ فارمولہ عیاں نہیں کیا گیا کہ تحریک عدم کی ناکامی کیسے ممکن ہو گی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی یہ صورتحال آئندہ دو سے تین روز تک واضح ہو جائے گی۔ اس سب کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا ٹوئیٹر مسلسل سرگرم دکھائی دیا ۔کبھی وزیراعلیٰ بلوچستان ناراض اراکین پر طنز کے نشتر برساتے تو کبھی اپنی تین سالہ کارکردگی کا پرچار کرتے۔ کبھی مختلف ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت اور فنڈز کی تفصیلات بیان کی جاتیں تو کبھی گوادر میں منعقدہ آف روڈ جیپ ریلی کی باز گشت سنائی دیتی۔ غرض وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا اس کشیدہ صورتحال میں بھی اطمینان بخش رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
اگر نمبر گیم پر نظر ڈالی جائے توبلوچستان عوامی پارٹی کے11ناراض اراکین کے ساتھ ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن کو اپوزیشن کے23اور دو سابقہ وزرائے اعلیٰ کی حمایت حاصل ہے ۔دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان کا کیمپ ہے جس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 12پاکستان تحریک انصاف کے6عوامی نیشنل پارٹی کے4ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 2 اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس نمبر گیم کی پوزیشن کے مطابق جام کمال کا بچنا بے حد مشکل لگ رہا ہے۔ اب تک جتنے بھی ناراض اراکین اور اپوزیشن اراکین سے رابطے کئے گئے ہیں انکے مطابق وہ تمام کے تمام مکمل طورپر متحد اور مائنس جام کمال کے فارمولے پر قائم ہیں۔ ناراض اراکین ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔
انکا دعویٰ ہے کہ اکثریت انکے ساتھ ہوگی۔ اس صورتحال میں جام کمال خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا دعویٰ کچھ ہضم نہیں ہوتا۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاست اور کرکٹ میں آخری گیند تک بھی صورتحال غیر یقینی ہی رہتی ہے۔ جب تک فیصلہ سامنے نہ آجائے کوئی بھی بات حتمی اور کوئی بھی دعویٰ سچ ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور پھر جام کمال خان تو خود بھی ایک کھلاڑی ہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ اس بار انکا کھلاڑی دماغ کیسا پینترا استعمال کرتا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کی فضا ء پیدا ہونے لگی ہے۔ گزشتہ روز ہی سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے قریب پولیس وین کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں ایک اہلکار شہید جبکہ 13اہلکاروں سمیت 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ نے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کی سکیورٹی پرایک بار پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری آچکی ہے۔