بلدیاتی انتخابات اور قبائلی اضلاع کی مشکلات

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات آئندہ ماہ سے شروع ہوں گے۔بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک کافی لیت ولعل سے کام لیاجاچکا ہے تاہم اب عدالت کے حکم پر یہ انتخابات کروانے ہی ہوں گے ۔نئے ایکٹ کے تحت خیبرپختونخوا میں تحصیل کونسل کی نشستوں کی تعداد 120ہے صوبے بھر میں سٹی کی چھ اور ایک میٹروپولیٹن کی کی نشست ہے ،تحصیل کونسل کی 120 نشستوں میں سے پچیس قبائلی اضلاع کی بھی ہیں ۔یعنی قبائلی اضلاع بھی اب اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے نظام سے مستفید ہوسکیں گے۔

قبائلی اضلاع میں اس سے قبل تمام تر اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس ہوتے تھے ۔پولیٹیکل ایجنٹ یقینی طورپر اس علاقے کا وائسرائے ہوتا تھا جس سے ملنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے ۔پولیٹیکل ایجنٹ جو فیصلہ کرلیتا وہ پتھر پر لکیر ثابت ہوتا تھا اور اسے چیلنج نہیں کیاجاسکتا تھا۔تمام اختیارات کا منبع پی اے آفس ہی ہوتا تھا پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس اتنے اختیارات ہوتے تھے کہ وہ معمولی غلطی پر بھی کسی کو بھی کئی سال تک قید کی سزا سنا سکتاتھا ۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد یہ صورتحال قدرے تبدیل ہوگئی ہے لیکن حالات ابھی بھی زیادہ تسلی بخش نہیں ۔پولیٹیکل ایجنٹ کا کردار ڈپٹی کمشنر کو سونپ دیاگیا ہے۔ اگر ان علاقوں میں بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں تو اختیارات واقعی نچلی سطح پر منتقل ہوجائیں گے۔ لوگوں کومنتخب نمائندوں سے ملنے میں آسانی رہے گی ۔ان علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے ۔انفراسٹرکچر نہیں ہے،سیوریج کا بندوبست نہیں ،پینے کے پانی کی قلت ہے ۔ صحت کی سہولیات اب بھی ناپید ہیں ان علاقوں کے نام پرجو فنڈ آرہا ہے وہ کہاں لگ رہا ہے اس کا بھی کوئی حساب نہیں ۔

بلدیاتی نظام آنے کے بعد عوام کو کوئی تو جوابدہ ہوگا ، لوگوں کے چھوٹے مسائل فوری طورپر حل ہوسکیں گے۔ اگر اس نظام کو صحیح طریقے سے چلایاگیا تو قبائلی عوام کے دکھ درد کافی حد تک دور ہوجائیں گے ۔قبائلیوں کیلئے سالانہ سوارب روپے کا جو وعدہ کیاگیا ہے وہ بھی ان نمائندوں کے ذریعے مناسب طورپر خرچ کئے جاسکیں گے ۔نئے بلدیاتی نظام میں صوبے بھر میں 4212 ویلیج کونسل اور نیبر ہوڈ کونسل کی نشستیں ہیں ،جن میں تین ہزار 501بندوبستی اور 711نشستیں قبائلی اضلاع کی ہیں ۔ضلع پشاور میں مجموعی طورپر 357نیبر ہوڈ اور ویلیج کونسل ہیں۔

 اسی طرح صوبے میں 6سٹی کونسل ہیں جن میں ایبٹ آباد،مردان،سوات ،کوہاٹ،بنوں اور ڈی آئی خان شامل ہیں۔ ان سٹی کونسل میں مئیر ہوں گے باقی صوبے بھر میں تحصیل کونسل قائم کی جائیں گی۔پشاور میں 6 تحصیلیں ہیں جن پر 6 تحصیل کونسلر ہوں گے ۔نئے نظام میں ڈسٹرکٹ ناظم نہیں رکھاگیا ہے۔ اس سے قبل ہرضلع میں ڈسٹرکٹ ناظم ہوتا تھا جس کے پاس کافی اختیارات ہوتے تھے ۔ نومبر کے پہلے مرحلے میں ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات ہونے جارہے ہیں جو غیر جماعتی ہوں گے ۔الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت سے اس حوالے سے ایکشن پلان بھی مانگ رکھا ہے جس کے مطابق انتخابات کرائے جائیں گے ۔

سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کیلئے تیاری شروع کردی ہے اگرچہ ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی ہوں گے لیکن امیدواروں کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل رہے گی۔ اس وقت بلدیاتی انتخابات کیلئے حالات بھی انتہائی سازگار ہیں ،امن وامان کی صورتحال بہتر ہے۔ جس کی بڑی مثال کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہیں جو انتہائی پرامن طریقے سے مکمل کئے گئے۔ بلدیاتی انتخابات سے حکومت اور اپوزیشن کیلئے ایک سمت بھی متعین ہوجائے گی۔ اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ حکومت کی مقبولیت کا گراف کتنا ہے اور اپوزیشن عوام کو کتنا اعتماد میں لینے میں کامیاب رہی ہے؟

 اپوزیشن اس وقت شدید اختلافات کا شکار ہے ،پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم اختلافات کی نظر ہوگیا ہے ۔دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی اس اتحاد سے نکل چکی ہیں یا نکالی جاچکی ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جن میں ایک مسلم لیگ( ن) اور دوسری جے یو آئی (ف) ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ( ن) بھی اندرونی اختلافات کا شکار ہے ۔پنجاب میں اگرچہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے اس اتحاد سے نکلنے سے زیادہ فرق نہ پڑا ہو لیکن خیبرپختونخوا میں ان جماعتوں کے انخلاء نے ضرور اس پلیٹ فارم پر ڈینٹ لگایا ہے۔

 اسلام آباد میں جے یو آئی کی جانب سے دیے گئے دھرنے میں شرکت کیلئے خیبرپختونخوا سے اے این پی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسلام آ باد پہنچی تھی ۔اسلام آباد دھرنے میں آنے والوں میں پیپلزپارٹی کے خیبرپختونخوا کے ورکرز کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ اسی طرح پشاور کے جلسوں میں بھی اے این پی اور پیپلزپارٹی نے اہم کردار اداکیاتھا لیکن ان کے نکلنے کے بعد خیبرپختونخوا کی حد تک پی ڈی ایم کا وہ زور نہیں رہا۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جب جب یہ سیاسی جماعتوں اکٹھی ہوئیں، انہوں نے پشاور میں پاور شو کرنے کی کوشش کی۔ ان میں اتنی زیادہ عوام نہیں آئی جتنی ان جماعتوں کی اس پلیٹ فارم سے ہٹ کر تن تنہا جلسہ یا مظاہرہ کرنے میں لوگ شریک ہوئے۔

 مہنگائی کے خلاف یہ سیاسی جماعتیں کوئی خاص کردار ادانہیں کرسکیں۔ ملک بھر کی طرح مہنگائی کا جن خیبرپختونخوا میں بھی بے قابو ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔