بلدیاتی اداروں کی بحالی کا عمل ،عدالت عظمیٰ کا تحقیقات کا اعلان

تحریر : سلمان غنی


مہنگائی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایک ہی روز میں بجلی، پٹرولیم اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نے ہر چیز پر اپنے اثرات قائم کئے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشیائے خورو نوش ہوں یا دیگر اشیائے ضروریہ، کسی پر چیک نہیں رہا۔ ہر دکاندار اپنی من مرضی سے خریدار کی جیب کاٹتا نظر آ رہا ہے اور خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔ اس حوالے سے قائم مجسٹریٹ سسٹم بھی دم توڑ چکا ہے ۔اپوزیشن جو تقریباً تین سال سے مہنگائی،بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت پر خاموش تھی اور محض میڈیا پر احتجاج کرتی نظر آتی تھی اب اسے بھی بجلی اورپٹرولیم کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے پر ہوش آیا ہے اور اس نے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

 پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں مہنگائی کے خلاف مظاہروں کے اس عمل کو فی الحال ضلعی ہیڈکوارٹرز تک محدود کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں پہلا مظاہرہ راولپنڈی میں ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سلسلہ آگے کی طرف بڑھے گا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ عوام پر روزمرہ بنیادوں پر مہنگائی بم گرائے جا رہے ہیں۔ عوام کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، الٹا عوام کو پریشان کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی کو بڑا ایشو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور معاشی بدحالی نے عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے۔ احتجاج کے سوا کوئی آپشن نہیں ،حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ 

دوسری جانب حکومت اور وفاقی وزرا بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کی بجائے الٹا اس مہنگائی کا جواز بتاتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی بڑھی ہے ،ہم کسی علیحدہ سیارے پر نہیں رہتے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم چور مچائے شور کے فارمولا پر عمل پیرا ہے۔ حکومتی ترجمان فواد چودھری کہتے ہیں کہ پورا ملک سبسڈی پر نہیں چل سکتا۔ آج قیمتیں اوپر تو کل نیچے آ جائیں گی۔ تنخواہ دار طبقہ کی مشکلات ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر اپنے ورکرز کی تنخواہوں میں اضافہ کرے۔

ایک طرف سیاسی محاذ پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے آگ لگا رکھی ہے تو دوسری جانب امریکہ میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں ڈو مور کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس معاشی معاملات چلانے کے لیے کوئی سیاسی ٹیم نہیں بلکہ آئی ایم ایف پر ہی انحصار جاری ہے۔ موجودہ مشیر خزانہ شوکت ترین جو سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ پر یہ کہہ کر تنقید کرتے نظر آئے تھے کہ آئی ایم ایف سے غلط شرائط پر ہونے والے معاہدے نے معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ اب وہ ویسے ہی بیانات دیتے نظر آ رہے ہیں جن کو سرکاری قرار دیا جا سکتا ہے۔

 مذکورہ صورتحال پر غور کیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ حکومت سے اب عوام کے لیے ریلیف کے امکانات کم ہیں۔ بجلی کے بلوں کے ذریعے لگنے والے عوام کو جھٹکوں نے ان کا کچومر نکال دیا ہے اور اس پر جلتی پر تیل کا کام پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے نے کیا ہے۔ لہٰذا مہنگائی زدہ عوام کے اندر حکومتی پالیسیوں کے خلاف شدید رد عمل ہے اور اسی رد عمل کو محسوس کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں متحرک ہوئی ہیں۔

 بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن مسائل زدہ عوام کو سڑکوں پر لاپائے گی اور ان کی آواز بن سکے گی ؟۔حکومتی معاملات اور سیاسی رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اب وہ ون پیج والی صورتحال بھی قائم نہیں رہی اور احتساب آرڈیننس آنے کے بعد سے اب احتسابی عمل بھی کارگر نظر نہیں آ رہا اور اسلام آباد بھی افواہوں کی زد میں ہے۔ لہٰذا اگر اپوزیشن اپنے احتجاج میں سنجیدہ ہوتی ہے تو پھر مہنگائی زدہ اور مسائل زدہ عوام کو سڑکوں پر لانا مشکل نہیں ہو گا اور حکومت پر دبائو بڑھے گا اور اپوزیشن کے اس احتجاج کا سامنا کیا حکومت کر پائے گی؟ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ اس حوالے سے دو آرا نہیں کہ حکومتی پالیسیوں اور خصوصاً مہنگائی نے حکومت کا سیاسی کیس مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔

 سیاسی حلقوں کے مطابق اگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی احتجاج کو مشترکہ بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر احتجاج کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بڑھیں گے اور یہ سلسلہ سیاسی تبدیلیوں تک بھی وسیع تر ہو سکتا ہے کیونکہ اب حکومت کے پاس سرپرستی کا وہ پہلا سا بندوبست نظر نہیں آ رہا۔ اب حکومت کو اپنے مینڈیٹ اور پارلیمانی قوت پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر کے عمل کی تحقیقات کرانے کا اعلان کر کے ایک مرتبہ پھر ان اداروں کی اہمیت  کو عیاں کیا ہے۔سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر پر تحقیقات کروانے کا فیصلہ سناتے ہوئے ہائیکورٹ کے حکم ناموں کی مصدقہ نقول طلب کر لی ہیں۔ 

اگر بلدیاتی اداروں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو آئین پاکستان کے تحت ان اداروں کے تسلسل اور ان کی سیاسی ، انتظامی اور مالی خود مختاری کے بارے میں کمٹمنٹ سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ہمیشہ انہیں اپنی سوتن سمجھتی رہی ہیں اور ان کے انتخابات کرانے سے بھی گریزاں رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت اداروں کی بحالی کو تکنیکی وجوہات کی نذر کرنے کی کوشش ہوئی اور اس کی بنیاد 2019 کے ایکٹ کو بنایا گیا ۔ اب بھی اس ایکٹ میں ترامیم کا سلسلہ جاری ہے اور لگتا یوں ہے کہ جو حکومت اپنا ایکٹ نہیں بنا سکتی وہ بلدیاتی انتخابات کیا کرائے گی اور اس طرح سے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ان اداروں کے انتخابات کیلئے ڈالا جانے والا دبائو بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔