ایک بار پھر اب کیا ہوگا کی گونج

تحریر : خاور گھمن


بڑھتی مہنگائی، ڈالر کی اونچی اڑان، آئی ایم ایف کا دباؤ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے پیدا ہونے والا تناؤ۔ نئے چیرمین نیب کی تعیناتی سمیت نیب کا قانون اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج مظاہروں کا ایک بار پھر اعلان۔ وزیراعظم عمران خان اکثر اپنے کرکٹ کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے پریشر کے دوران پرفارم کرنے والے کو اصل کھلاڑی مانتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ اپنے چاہنے والوں کو تجویز کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کا مشہور زمانہ قول بھی ہے کہ ’’ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ مشکل سے مشکل صورتحال کا اگر سامنا ہو تو بھی خندہ پیشانی سے اس کا نہ صرف سامنا کرنا ہے بلکہ ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہے۔

 موجودہ سیاسی، معاشی، اور سماجی حالات کا بغور جائزہ لیں تو تحریک انصاف کی حکومت اپنے سخت ترین دور سے گزر رہی ہے۔ چند ماہ پہلے تک جب حالات قابو میں تھے تو کہا جا رہا تھا وزیراعظم عمران خان نہ صرف اپنی یہ مدت بلکہ آئندہ پانچ سال کے لیے بھی ایک مضبوط امیدوار ہوں گے۔ اپوزیشن کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔ پی ڈی ایم کا شیرازہ حقیقت میں بکھر چکا تھا۔ ہر کو ئی خاموشی سے بیٹھا تھا۔ لیکن اب ایسا ماحول بنتا محسوس ہو رہا ہے جیسے تحریک انصاف کی حکومت کو صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے۔ یہ تاش کے پتوں کی مانند زمین پرآن گرے گی۔ 

سیاست کے حوالے سے ہمیشہ سے ایک کہاوت بہت مستند مانی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ "A week is a long time in Politics"۔ سیاست میں ایک ہفتہ کافی ہوتا ہے حالات کے یکسر بدلنے کے لیے۔ اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے چند ہفتے پہلے ایک مضبوط نظر آنے والی حکومت اب کمزور نظر ا رہی ہے۔ اس میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ شامل ہے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد کے ایوانوں میں آجکل ایک بار وہی پرانا سوال پوچھا جانے لگا ہے۔ کیا عمران خان اپنے پانچ سال پورے کر پائیں گے؟

ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے جب ہماری بات چند حکومتی ارکان سے ہوئی تو کم و بیش تمام اشخاص کی طرف سے ملتے جلتے جوابات ہی سننے کو ملے۔ ایک سینئر حکومتی وزیر سے جب اس بار ے میں بات ہوئی خاص طور پر کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر پائے گی تو وزیر موصوف کا کہنا تھا اس حوالے سے وہ اور ان کی پارٹی بہت کلیئر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی چیئرمین کی طرف سے بھی ہمیں واضح دلیل سننے کو ملتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو گرانا چاہتی ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ اور وزیر اعظم سے جب بھی ہماری بات ہوتی ہے خاص طور پر اس سوال پر تو ان کی طرف سے ہمیں ایک ہی جواب ملتا ہے وہ یہ کہ آپ لوگ کسی بھی وقت اپوزیشن کرنے کے لیے تیار رہیں ۔یہ ڈر اور خوف بھی کم از کم قیادت کی طرف سے نہ کبھی سننے کو ملا ہے اور نہ ہی کبھی وزیر اعظم کبھی گھبرائے ہیں۔ 

البتہ مہنگائی کی وجہ سے پوری جماعت پریشان ہے۔ اس حوالے سے جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ ہم کر بھی رہے ہیں۔ گورننس کے بھی مسائل ہیں ان کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اگر تیل پوری دنیا میں مہنگا ہورہا ہے توحکومت ایک حد تک اس پر کچھ کر سکتی ہے۔ افغانستان میں جو حالات بنے ہیں، اس کے پاکستان پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔ اور اگر دنیا اسی طرح افغانستان پر اپنا شکنجہ سخت رکھے گی اور طالبان حکومت کو نہیں مانے گی تو وہاں اشیائے خورونوش نا پید ہونگی۔ طالبان حکومت اسی طرح دنیا سے الگ تھلگ رہے گی تو ظاہر ہے پاکستان پر اس کے اثرات پناہ گزینوں اور معاشی صورت میں پڑیں گے۔ پہلے ڈالرز افغانستان سے پاکستان آ رہے تھے اور اب جارہے ہیں۔ اثر تو پڑے گا۔

 ایک دوسرے وزیر کا کہنا تھا ہم پر بہت تنقید ہوتی ہے کہ ہم حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کی وجہ سے بیٹھے ہیں ۔

 قصہ مختصر تحریک انصاف کے لوگوں سے بات کر کے پتہ چلا کہ وہ حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بجائے، اس بڑھتے تاثر سے زیادہ پریشان ہیں کہ وہ لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے کے بجائے ان میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ظاہر ہے اگر یہی تاثر آئندہ انتخابات تک قائم رہتا ہے تو پھر الیکشن لڑنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا اہم سوال جو آج کل اسلام اباد کے حلقوں میں بڑے زورو شور سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا پاکستان مسلم لیگ (ن) موجودہ حکومت مخالف حالات کا فائدہ اٹھائے گی؟ آسان الفاظ میں کیا حکومت کو گھر بھجوانے میں کوئی کردار ادا کرے گے۔ یہ سوال لے کر جب ہم ن لیگ کے لوگوں کے پاس گئے تو وہاں سے ہمیں تھوڑی سی رائے منقسم ملی۔ پارٹی کے ذیادہ تر لوگوں کا خیال کہ انہوں نے مشکل تین سال گزار لیے ہیں لہٰذ اب عمران خان کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔

 ن لیگ میں بشمول شہباز شریف اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ ہاں پارٹی کا ایک حصہ وہ بھی ہے جو چاہتا ہے کہ طریقہ جو مرضی اختیار کریں تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کیا جائے۔ اور جتنی جلدی ہو سکے نئے انتخابات کی طرف جایا جائے۔ لیکن لگ ایسا ہی رہا ہے کہ ن لیگ کوئی جلدبازی نہیں کرے گی۔’’ مظاہرے وغیرہ ہم ضرور کریں گے لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ لوگ تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کا اصل چہرہ ضرور دیکھیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عمران خان اپنا وقت پورا کریں ‘‘یہ کہنا تھا پارٹی کے ایک سینئر رہنما کا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ،اس بات کا چند مہینوں کے بعد پتہ چلے گا۔ جس کے بعد دیکھا جائے گا کہ ملکی سیاست میں کون تبدیلیاں ہوتی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔