ٹی وی ڈرامے پاکستانی معاشرے کے عکاس نہیں ،متنازع موضوعات و مناظر پر عوامی تنقید ،پیمرا ان ایکشن

تحریر : محمد ارشد لئیق


کیا موجودہ ٹی وی ڈرامے ہمارے معاشرے کے عکاس ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو تقریباً آج ہر پاکستانی کی زبان پر ہے، ناصرف عوامی حلقوں میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی ڈراموں کو لے کر آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی ڈرامے اس قدر مادر پدر آزاد ہو چکے ہیں کہ ہر کوئی کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔

متنازع اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی عکس بندی معمول بن گیا ہے اور نامناسب لباس و حرکات بھی آج کل کے ڈراموں کا خاصہ بن چکی ہیں۔ ڈراموں کے موضوعات ایسے ہیں کہ وہ ہمارے معاشرے اور ثقافت کے اظہار کے بجائے ایک نیا کلچر پیش کر رہے ہیں۔ ان ہی ڈراموں کے اثرات ہیں کہ معاشرے میں منفی رجحانا ت فروغ پا رہے ہیں۔ وہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے جو پہلے ممنوع ہوا کرتا تھا۔ پاکستانی ڈرامے اس قدر آزاد ہو چکے ہیں کہ اب تو دینی حلقوں کے بجائے ماڈرن طبقات بھی اس پر آواز اٹھا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پیمرا سے ایسے ڈراموں کو بند کرانے کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ 

ڈراموں کے موضوعات کے خلاف صدرِ پاکستان عارف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی بھی آواز اٹھا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈراموں میں دکھایا جانے والا مواد اور موضوعات تبدیل ہونے چاہئیں۔ ڈراموں میں کوئی ڈھنگ کی بات نہیں ہوتی، اعتراض کرو تو جواب دیتے ہیں کہ دیگر موضوع ریٹنگ نہیں دیتے۔پاکستان کی معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین مرحومہ بھی موجودہ دور کے ڈراموں سے مطمئن نہیں تھیں، وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ نئے لکھے جانے والوں ڈراموں کے موضوعات عجیب ہو گئے ہیں۔ 

صرف موضوعات ہی متنازع نہیں، اب تو مناظر کی عکسبندی بھی ’’کھُل‘‘ کر کی جا رہی ہے۔ جو چیزیں پہلے ٹی وی پر دکھانے کے لئے ممنوع تھیں اب انہیں بھی دھڑلے سے دکھایا جا رہا ہے۔ طلاق جیسے نا پسندیدہ موضوعات کو ڈراموں کے ذریعے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے موضوعات کو سامنے لانا سراسر غلط ہے، جس طرح پہلے بسوں میں بے ہودہ گانوں کا رواج آیا۔ جب ڈرائیور وںنے دیکھا عوام کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا تو گانوں کی جگہ وی سی آر نے لے لی۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے، صرف اور صرف ہماری غفلت کی وجہ سے۔ ہمیں ایسے موضوعات پر آواز اٹھانی چاہیے۔

پیمرا اس حوالے سے متعلقہ چینلز کو نوٹس جاری کرتا رہتا ہے، حال ہی میں بھی ایک ایسا ہی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ جس میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ٹی وی چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ حیا کا مظاہرہ کریں اور اسکرین پر قربت کے مناظر دکھانے سے گریز کریں۔ پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو یاد دہانی کرائی ہے کہ نامناسب لباس اور قربت کے مناظر، حساس و متنازع موضوعات پر مبنی قابل اعتراض ڈرامے اور واقعات کی غیر ضروری تفصیل نشر نہ کریں۔ پیمرا کے مطابق یہ سب ناظرین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے اور عام طور پر قبول شدہ معیار کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے موجودہ رجحانات پر پیمرا کو نہ صرف پاکستان سٹیزن پورٹل (پی سی پی) اور پیمرا شکایات کال سینٹر و فیڈ بیک سسٹم پر عام لوگوں کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہو رہی ہیں بلکہ سوشل میڈیا،واٹس ایپ گروپس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ پیمرا نے کہا کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ڈرامے پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر پیش نہیں کر رہے ہیں۔

چینلز کو جاری کیے گئے ہدایت نامے میں کہا گیا کہ معانقہ، ناجائز تعلقات، بے ہودہ، بولڈ لباس اور شادی شدہ جوڑوں کے تعلق کو گلیمرائز کرنا اسلامی تعلیمات اور پاکستانی معاشرے کی ثقافت کے منافی ہے۔پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو یاد دہانی کرائی کہ ڈراموں میں ایسے مناظر نشر کرنے سے گریز کرنے اور ’’اِن ہاؤس مانیٹرنگ کمیٹیوں‘‘ کے ذریعے ڈراموں کے مواد کا باقاعدہ جائزہ لیا جائے اور مذکورہ تحفظات اور ناظرین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں ترمیم کی جائے۔ سیٹلائٹ ٹی وی کے لائسنس یافتہ اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ڈراموں میں اس طرح کے مواد کو نشر کرنا بند کریں اور پیمرا قوانین پر مکمل طور پر عمل کو یقینی بنائیں۔

(ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے موقر جریدوں میں ان کے سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں)

…٭٭…

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔