عبدالقدوس بزنجو ان۔۔۔جام کمال آوٹ!،آئندہ کیا صورتحال ہوگی!
بلوچستان کا سیاسی بحران آخر کار حل ہو گیا ہے۔جام کمال خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے 13 گھنٹے قبل ہی مستعفی ہو گئے ۔وہی جام کمال خان جو خود اور انکے حامی وزراء و ترجمان بارہا یہ کہتے رہے کہ جام کمال خان کسی صورت عدم اعتماد سے قبل مستعفی نہیں ہونگے اور اس تحریک کاجم کر مقابلہ کرینگے ۔اگر ہم جام کمال خان کے خلاف اس تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالیں توبلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے۔ جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام تھا کہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کیلئے ترقیاتی فنڈز مختص نہیں کئے ۔جس کے بعد یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17اراکین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
گزشتہ ماہ ستمبر میں اپوزیشن کے 16اراکین اسمبلی نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تاہم گورنر ہاؤس سیکرٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی ۔اس ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے 14اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کرائی گئی۔ جام کمال کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کاسامنا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کیلئے ان سے مشاورت نہیں کرتے تاہم اسلام آباد سے آئے چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کئی گھنٹے کی طویل ملاقاتیں کیں اور وزیراعلیٰ جام کمال خان کو مستعفی ہو جانے پر قائل کر لیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جام کمال کے خلاف بی اے پی اور اپوزیشن اراکین کے پاس مطلوبہ تعداد سے بھی کئی گنا زیادہ حمایت ہونے کے باوجود بھی انکا اپنے موقف پر ڈٹے رہنا حیرت کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیونکہ بی اے پی اور اپوزیشن اراکین کی تعداد 38تک جا پہنچی تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے واحد رکن اسمبلی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور آزاد رکن سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کے بعد یہ تعداد 40ہو گئی تھی۔ اسمبلی میں رائے شماری کے دوران انہیں محض 33 اراکین کی حمایت حاصل کرنا تھی ۔
جام کمال خان کے استعفیٰ کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں بی اے پی کے اکثریتی اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی ۔ اسی روز اسپیکر قدوس بزنجو جنہیں بی اے پی کی جانب سے اگلے وزیراعلیٰ کا امیدوار منتخب کیا گیا نے بھی اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔حکومت کے خاتمے کے بعد صوبے میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل پیدا ہوئی اور نئی حکومت کے قیام کے حوالے سے ہرسیاسی کیمپ میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں ۔جام کمال خان کے حمایتی اراکین جو ایک روز قبل تک جام کمال خان کی حمایت کا اعلان کر رہے تھے آہستہ آہستہ قدوس بزنجو کے کیمپ میں جانے کے لئے پرتولنے لگے ۔پی ٹی آئی کے مبین خلجی، بی اے پی کے ربابہ بلیدی،خلیل جارج اور سردار مسعود لونی کے بعد ایک ایک کر کے قدوس بزنجو کی حمایتی اراکین کے ناموں میں اضافہ ہونے لگا ۔ پھر رات گئے منظر اس وقت تبدیل ہوگیا جب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماء وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اسلام آباد سے ہنگامی دورے پر کوئٹہ پہنچے اور ان کی کاوشوں سے پی ٹی آئی اور جام کمال کے حمایتی ارکان کو اکٹھا کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعتوں کے ارکان کو اکٹھا کرکے قدوس بزنجو کے کیمپ میں کھڑا کردیا۔ اسی رات ہنگامی پریس کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزیر پرویز خٹک، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، صدر بلوچستان عوامی پارٹی ظہور بلیدی نے عبدالقدوس بزنجو کا نام وزارت اعلیٰ جبکہ میر جان جمالی کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی کیلئے نامزد کرنے کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کہنا تھا بلوچستان میں ایک ماہ سے سیاسی بحران تھا آج اس بحران کا خاتمہ ہوا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم سب یہاں آئے ہیں سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی بھی خواہش تھی کہ تمام ممبرز اکھٹے ہو جائیں اور پارٹی کو بچائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ بلوچستان ترقی کرے ۔بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی کا کہنا تھا جام کمال نے پارٹی بچانے کیلئے بہترین کردار ادا کیا ۔ وفاقی وزیر پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے اتحادی تھے اور مستقبل میں بھی اتحاد میں رہیں گے۔ وزیر اعلیٰ کے نامزد امیدوار عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا بلوچستان کی ترقی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ بلوچستان ایک وسیع صوبہ ہے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کیلئے مل کر کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ وزیراعلیٰ ہوگا۔ انہیں اپوزیشن سمیت تمام پارلیما نی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ایک مثالی حکومت بناکر صوبے کے عوام کی خدمت کریں گے۔
بی اے پی کے اکثریتی اراکین کا کہنا ہے کہ اس بار صوبے میں ایسی حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں گے کہ جس میں سب ملکر بلوچستان کی تعمیر وترقی کے لئے کردار ادا کریں ۔یہی وجہ ہے کہ عبدالقدوس بزنجو سمیت دیگر پارٹی ممبران نے بلوچستان کی ہر جماعت سے ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے لئے قدوس بزنجواور اسپیکر کے لئے پارٹی کے سینئر ممبر جان محمد جمالی کے علاوہ وہ تمام اراکین جنہوں نے جام کمال مخالف تحریک میں بھرپور ساتھ دیاانہیں نئی کابینہ میں اہم وزارتیں ملنے کاا مکان ہے۔ ان میں سرفہرست سردار عبدالرحمن کھیتران ،ظہور بلیدی، سردار صالح بھوتانی ، اسد بلوچ ،نصیب اللہ مری بشریٰ رند، اکبر آسکانی سمیت دیگر اراکین شامل ہیں۔جبکہ سابقہ جام کمال حکومت میں شامل اتحادیوں کو بھی ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔