بلدیاتی انتخابات: سیاسی جوڑ توڑ عروج پر
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا مہنگائی میں کمی لانے کیلئے کئی بار اعلان کرچکے ہیں لیکن صوبے کی موجودہ معاشی صورتحال میں ان اعلانات پر عملدرآمد مشکل ہے ۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی معاشی ٹیم کی کارکردگی بھی اس حوالے سے کچھ خاص نہیں ۔موجودہ حکومت میں کئی پالیسیاں تو بنائی گئی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ ایک قانون ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کیلئے بھی پاس کیاگیاتھا جس کی بڑی شدومد سے تشہیر بھی کی گئی تھی لیکن اس قانون کے تحت ابھی تک کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ موجودہ حالات میں ذخیرہ اندوزوں کے بھی وارے نیارے ہیں۔ مہنگائی کے باعث نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومت کی بھی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
اسی ہنگامی صورتحال میں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان بھی کردیاگیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے مسلسل ٹال مٹول ،حیل وحجت اور مختلف تاویلیں دینے کے باوجود الیکشن کمیشن نے 19 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول دے دیا ہے۔ صوبائی حکومت چاہتی تھی کہ عوام کو قدرے ریلیف دینے کے بعد یہ انتخابات کرائے جائیں لیکن الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے مزید وقت دینے کیلئے تیار نہیں ۔موجودہ حالات کا یقینا ان انتخابات پر بھی اثر پڑے گا اور اپوزیشن جماعتیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیں گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 4 نومبر سے کاغذات نامزدگی وصول کئے جاسکیں گے ۔ 23 نومبر کو امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کئے جائیں گے جبکہ 19 دسمبر کو پولنگ ہوگی ۔خیبرپختونخوا حکومت چاہتی تھی کہ پہلے مرحلے میں ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات منعقد کئے جائیں اور دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھی ارسال کیاگیاتھا جس میں کافی وجوہات کا ذکر کیا گیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور ایک ہی دن ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل میں الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق صوبے میں ضلعی حکومتوں کی معیاد 28 اکتوبر 2019ء کو ختم ہوگئی تھی۔ لیکن آبادی کے سرکاری اعدادوشمار کی اشاعت کے علاوہ کورونا کے باعث تاحال الیکشن نہ ہوسکے۔ الیکشن کمیشن نے البتہ صوبائی حکومت کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ بقیہ ماندہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات سولہ جنوری 2022ء کو ہوں گے ۔پہلے مرحلے میں 19 دسمبر کو 17 اضلاع میں یہ انتخابات ہونے ہیں۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسل کے ساتھ تحصیل کونسل کے انتخابات بھی کراناچاہتی ہے تاکہ ایک ہی ضلع میں دو دو بار انتخابات کے جھنجھٹ سے بچا جاسکے ۔صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین اس حوالے سے کافی عرصے سے تنازعہ چلاآرہاتھا جس کا اب اختتام ہوتا نظر آرہا ہے۔
ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں لیکن امیدوار یقینا سیاسی جماعتوں کی حمایت سے ہی کھڑے ہوں گے جس کیلئے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ اس سے قبل کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں کافی ہلچل دیکھنے میں آئی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ایسی ہی سرگرمی ہوگی اور شہری بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر نکلیں گے۔ عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کتنی ضروری ہے ۔اصل معرکہ تحصیل کونسل کے انتخابات میں ہوگا جس کیلئے سیاسی جماعتیں امیدوار ڈھونڈ رہی ہیں ۔تجزیہ کاروں کی نظریں اس وقت ضلع نوشہرہ پر بھی ہیں جہاں پرویز خٹک خاندان کے مابین تنازعہ چلاآرہا ہے۔ اگرچہ کہاجارہا ہے کہ پرویزخٹک اور ان کے بھائی لیاقت خٹک کے مابین صلح ہوگئی ہے اور اختلافات ختم ہوگئے ہیں لیکن بیل پھر بھی منڈے چڑھتی نظر نہیں آرہی۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ لیاقت خٹک اپنے بیٹے کے ساتھ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے جارہے ہیں ۔
اس حوالے سے کافی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں ذرائع کا کہناہے کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ لیاقت خٹک میڈیا کے سامنے آکر باضابطہ طورپر پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں جس کے بعد ان کی ملاقات آصف زرداری سے بھی کرائی جائے گی ۔اگرچہ ابھی تک خٹک خاندان نے اس کی تصدیق نہیں کی ۔لیاقت خٹک کے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے سے تحریک انصاف کو نوشہرہ میں ضرور دھچکا لگے گا جس کا عملی مظاہرہ ضمنی انتخابات میں اسی حلقے سے مسلم لیگ( ن) کے امیدوار اختیار ولی کی فتح اور پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست سے سامنے آچکا ہے ۔لیاقت خٹک مقامی سطح پر اپنے بھائی پرویزخٹک کی نسبت زیادہ مقبول ہیں ۔پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق لیاقت خٹک علاقے کے تنازعات کے حل کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ پرویزخٹک کی نسبت تنظیمی طورپر بھی وہ زیادہ مضبوط ہیں اور تمام امور وہی دیکھتے ہیں۔
اے این پی اور جے یو آئی کی بھی بھرپور تیاریاں جاری ہیں ،البتہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی جماعتیں فی الحال کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھارہیں ۔یہ تحریک انصاف کیلئے بھی ایک اچھا موقع ہے کہ ان دو جماعتوں کی عدم دلچسپی سے بھرپورفائدہ اٹھائے اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے ۔مہنگائی اور دیگر مسائل کے باوجود تحریک انصاف ابھی بھی یہاں مقبول ترین جماعت ہے اگرچہ اب مقبولیت میں قدرے کمی آئی ہے لیکن پھر بھی یہاں پی ٹی آئی کو پچھاڑنا اپوزیشن کیلئے زیادہ آسان نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کس لائحہ عمل کے تحت میدان میں آتی ہیں۔