شہباز شریف کی پر اسرار ملاقاتیں۔۔حقیقت کیا ہے؟

تحریر : سلمان غنی


حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایشوز کے حوالے سے وہی پہلی سی کیفیت، وہی ڈیڈ لاک کی کیفیت طاری ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں جن کے وجود کا مقصد قومی و عوامی مسائل کے حوالے سے سفارشات اور حکومت کیلئے ان پر عملدرآمد کا موقع ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی سنجیدگی اور یکسوئی نظر نہیں آتی ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر ایوانوں کے اندر قوم و ملک کو در پیش مسائل اور دیگر خارجی اور داخلی ایشوز پر سیر حاصل بحث ہو تو یقینا مسائل کے حل میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ سیاسی اتار چڑھائو اور جمہوری امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر جمہوریت اور جمہوری عمل کو چلنا ہے تو سیاسی قوتوں کو ہر مسئلہ پر پارلیمنٹ کو بروئے کار لانا ہوگا اور خود اپوزیشن کو بھی پارلیمنٹ کا رخ کرنا پڑے گا۔

 جہاں تک اسمبلیوں کے اندر سے تبدیلی کے عمل کا سوال ہے تو سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ خالصتاً نمبر گیم کا عمل نہیں رہا اس کو ممکن بنانے کیلئے کچھ اور عوامل بھی کارگر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں۔ جہاں تک پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی کے عمل کا سوال ہے اور یہاں مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی جماعت پر پیپلز پارٹی اور دیگر کے دبائو کا تعلق ہے تو مسلم لیگ( ن) کی لیڈر شپ اسے خارج از امکان تو نہیں سمجھتی لیکن فی الحال ان کا مؤقف یہ ہے کہ اب عام انتخابات میں آدھے سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے اور خود حکمران جماعت اپنی کارکردگی کے حوالے سے ایکسپوز ہو گئی ہے تو کیا ہم کسی سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں وہ بوجھ اٹھا پائیں گے جو حکومت کی کارکردگی کی بنا پر عوام پر پڑا ہے۔اس حوالے سے جب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے بات کی گئی تو ان کا یہ کہنا تھا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ان ہائوس تبدیلی آئینی و جمہوری عمل ہے اور سیاسی تبدیلی میں اس کا کردار اہم ہے مگر مسلم لیگ (ن) نے فی الحال ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ البتہ اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ حکومتی کارکردگی پر شدید تحفظات کے باوجود جمہوریت، جمہوری عمل سے چلتی ہے اور اگر واقعتاً تبدیلی کا آپشن ناگزیر بھی ہوا تو یہ ایوان کے اندر سے آ سکتی ہے۔ باہر سے تبدیلی کے امکانات اب ماضی کا حصہ ہیں اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کیلئے کسی بڑی تحریک کے نتیجہ میں حکومت کو چلتا کیا جا سکتا ہے تو یہ بھی کسی کی بھول ہے۔ 

 اگر زمینی حقائق کا اندازا لگایا جائے تو بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔اپوزیشن اور خصوصاً پی ڈی ایم کے جانے کے باوجود بھی لوگ سڑکوں پر آنے کی پوزیشن میں نہیں اورپی ڈی ایم کی لیڈر شپ اور جماعتیں محض اب احتجاجی جلسوں اور احتجاجی بیانات پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔جہاں تک مسلم لیگ( ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں بعض اہم ملاقاتوں کی افواہوں کا تعلق ہے تو شہباز شریف کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہمیشہ سے ڈائیلاگ کے حامی رہے ہیں۔ خصوصاً ملکی اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے حوالے سے ان کی رائے رہی ہے کہ ان سے محاذ آرائی اور تنائو کی کیفیت ملکی مفاد میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ مسلم لیگ( ن) کی سیاست کو مزاحمت سے جوڑا جاتا ہے تو تب بھی اس پارٹی کے صدر شہباز شریف اپنے مفاہمتی طرز عمل پر پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔  یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کو در پیش بحرانی کیفیت سے نجات کا حل احتجاجی تحریک کو قرار دینے کی بجائے فوری آزادانہ اور شفاف انتخابات کی بات کرتے نظر آتے ہیں ۔لہٰذا وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے نہ صرف کہ ’’ملاقاتوں‘‘ کو ناگزیر سمجھتے ہیں بلکہ اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

 یہ بات ضرور ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں نواز شریف کے بیانیہ کو ان کی صاحبزادی مریم نواز جرأت مندانہ انداز میں آگے لے کر بڑھ رہی ہیں اور حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ملک میں سول بالادستی اور خصوصاً آئین اور قانون کی بات کرتی ہیں اور موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو ٹارگٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ مسائل زدہ عوام کے اندر ایک غم و غصہ ہے اور خود مسلم لیگی کارکن بھی اپنی لیڈر شپ سے روا رکھے جانے والے سلوک پر رد عمل کی کیفیت میں ہیں۔ لہٰذا وہ مریم نواز کو اپنی آواز سمجھتے ہوئے اس پر لبیک کہتے نظر آتے ہیں لیکن سیاست میں جلسے جلوسوں اور احتجاج کی ایک اپنی اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بھی یہ معاون بنتے ہیں لیکن بالآخر سیاسی میدان میں مقاصد کے حصول کیلئے سنجیدگی اور مؤثر حکمت عملی کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ جب تک مسلم لیگ (ن) کے اندر بیانیہ کی جنگ کا خاتمہ نہیں ہوتا اور ملکی حالات اور آنے والے انتخابات پر یکسوئی اور سنجیدگی اختیار نہیں کی جاتی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے مقاصد میں کامیاب رہے گی۔ عدالت عظمیٰ کے دبائو کے پیش نظر پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تو منتخب اراکین کے سپرد کر دئیے ہیں، انہیں دفاتر اور دیگر سہولتیں بھی مہیا کر دی ہیں۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پختونخوا کیلئے  بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دے دی گئی ہے تو پنجاب میں بھی انہیں خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور اگر عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بن پاتا ہے تو یہ حکومت کیلئے بڑا امتحان ہو گا اور اس کے اثرات آنے والے عام انتخابات پر ضرور ظاہر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے سیاسی جماعتوں میں بلدیاتی انتخابات کیلئے ہل جل شروع ہو چکی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔