روٹیشن پالیسی : وفاق و سندھ میں ٹھن گئی
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران کے سندھ سے تبادلوں پر وفاق اور سندھ حکومت میں تنازع شدت اختیار کرگیا۔ وفاقی حکومت کے تحریری جواب پر وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا۔مراد علی شاہ نے پولیس کے گریڈ بیس کے 7 افسران کے سندھ سے تبادلے کو ایک بار پھرمسترد کردیا، گریڈ 20 کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے چار افسران کی سندھ میں تعیناتی سے بھی انکار کردیا البتہ 4 افسران کی سندھ میںتقرری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ سول سروس آف پاکستان میں شامل افسران کے تبادلے سول سروس رولز کی شق پندرہ کے تحت ہوتے ہیں، روٹیشن پالیسی کے تحت سندھ میں تعینات گریڈ 20 کے 7 پی ایس پی افسران کے تبادلے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان پولیس افسران کو سندھ سے واپس بلانے سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔ وزیرا علیٰ نے دیگر صوبوں سے تبادلہ کئے جانے والے گریڈ 20 کے 4 افسران کی سندھ میں تعیناتی پر آمادگی کا اظہار کیا جبکہ روٹیشن پالیسی کے تحت4پی ایس پی افسران کی سندھ میں تقرری کی تجویز مسترد کردی۔خط میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو سندھ حکومت کے فیصلے کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کرنے کے احکامات دیں ساتھ ہی گریڈ 17 اور 21 کے افسران کی سندھ میں تعیناتی کے احکامات بھی جاری کریں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت سے متعدد مرتبہ رجوع کیا گیا کہ سندھ میں افسران کی کمی کو پورا کریں۔سندھ میں 26پولیس افسران کی بجائے 22 افسران ہیں، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 47 افسران کی کمی ہے۔
گریڈ20 کے پی ایس پی اورپی اے ایس افسران کے تبادلے پروفاق اور سندھ میں معاملات کشیدہ ہوگئے ہیں۔چند روز قبل بھی وزیراعلیٰ سندھ نے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میںروٹیشن پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا تھاکہ پی اے ایس، اور پی ایس پی افسران فیڈریشن کے ملازم ہیں۔ وفاقی حکومت، قانون کے تحت صوبے سے کسی بھی افسر کے تبادلے یا تعیناتی سے پہلے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بات چیت کی پابند ہے۔ وفاقی حکومت نے پی اے ایس کے گریڈ 20 کے 4 افسران اور PSP کے سات افسران کی خدمات واپس لے کر روٹیشن پالیسی کے تحت 4 پی اے ایس اور 8 پی ایس پی افسران کو سندھ بھیج دیا ہے۔ مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژ ن نے چیف سیکریٹری سندھ کو لکھے گئے خط میں کہا کہ10 سال سے تعینات افسران کے تبادلے پر چیف سیکریٹری سندھ سے تین مرتبہ مشاورت کی گئی۔ تمام صوبوں نے اس پر عمل کیا لیکن سندھ حکومت نے ماضی کی طرح نہ جواب دیا اور نہ ہی اس پر عمل کیا۔ کسی حکومت نے پی ایس پی اور پی اے ایس گریڈ 20کے افسران کے تبادلوں پر اعتراض نہیں اٹھایا سوائے سندھ حکومت کے۔ خط میں وفاق نے کہا کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں افسران کی فہرست سندھ حکومت کو بھیجی گئی۔ خط میں کہا گیا کہ روٹیشن پالیسی کے تحت پی اے ایس اور پی ایس پی افسران کو فوراً ریلیو کیا جائے تاکہ وہ ڈیوٹی جوائن کرسکیں۔
افسران کے تبادلوں پروفاق اور سندھ آمنے سامنے ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی پیچھے نہ رہے۔ پریس کانفرنس میں سندھ حکومت پر برس پڑے، بولے سندھ میں شہری علاقوں کے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔سندھ حکومت آرام سے کہہ دیتی ہے کہ گندم چوری ہوگئی ہے، اسے اپنے معاملات ٹھیک کرنے چاہئیںان کا کہنا تھا ہم ان چیزوں پرسنجیدگی سے غورکررہے ہیں،اگرہم کارروائی کریں گے توان کی چیخیں ساتویں آسمان تک جائیں گی،پھرجمہوریت خطرے میں آجائے گی۔ سعید غنی کا فواد چوہدری کی پریس کانفرنس پر کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی نالائقی اور نااہلی سب کے سامنے ہے، سمجھتا تھا کہ فواد چوہدری کو آئین و قانون کا کچھ پتا ہوگا لیکن لگتا ہے کہ فواد چوہدری کو آئین و قانون کا کچھ نہیں پتا۔
سندھ میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے متعلق دائر درخواستوں پر صوبائی الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ہونے والی کارروائی سے متعلق تفصیلات سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ 30 نومبر تک قانون سازی سمیت تمام کام مکمل کرکے ضروری دستاویزات اور ڈیٹا کمیشن کے حوالے کرے۔ بصورت دیگر یکم دسمبر سے سندھ بھر میں حلقہ بندیاں شروع کردی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کیلئے وقتاً فوقتاً مہلت طلب کرتی رہی ہے۔ اس کے رویئے سے لگتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کرانے میں سنجیدہ نہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوںکے حوالے سے شیڈول جاری کردیاہے۔سندھ بھر میں یونین کونسل، یونین کمیٹی اور وارڈکی حلقہ بندی کا آغاز یکم دسمبر سے ہوگا۔
حلقہ بندیوں پر اعتراضات ت23 جنوری 2022 ء تک نمٹائے جائیں گے۔حلقہ بندیو ں کی حتمی اشاعت 23 فروری کو ہوگی۔ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 30 روز میں جاری کی جائے گی۔بلدیاتی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کیلئے15 روز ہوں گے۔ اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں ابہام و رکاوٹیں برقرار ہیں۔حلقہ بندیوں کیلئے قانون میں ترمیم نہیں کی جاسکی۔ متعلقہ اعداد و شمار، دستاویزات الیکشن کمیشن کو نہیں دی گئیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو مراد علی شاہ، ناصر حسین شاہ اور مرتضیٰ وہاب نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا تھا کہ ایسا بلدیاتی نظام تیار کیا جارہا ہے جس سے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات میں مزید توسیع ہواور ایسا قانون بنایا جارہا ہے جس سے بلدیاتی نظام مزیدمضبوط ہو۔