اپوزیشن :ساکھ کے بحران سے دو چار

تحریر : سلمان غنی


معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا اورعوامی سطح پر لوگوں کے اندر مایوسی اور بے چینی کا کوئی بھی مداوا کرنے اور ان کی آواز سننے کو تیار نہیں۔حکومت کی جانب سے تو اب وہ دعوے بھی ختم ہو کر رہ گئے ہیں جن میں خود وزیراعظم عمران خان اور حکومتی ذمہ داران، مہنگائی کے ذمہ داران خصوصاً منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں ان کے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے اور مشکل صورتحال سے نکلنے کی امید دلاتے نظر آتے تھے۔ لہٰذا اسی صورتحال میں ہمیشہ اپوزیشن جماعتیں اپنا کوئی مؤثر اور فعال کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں۔ لوگ ان سے امیدیں اور توقعات باندھتے نظر آئے تھے کہ وہ ان کی آواز بن کر مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف آواز اٹھا کر حکومت پر دبائو بڑھا کر حکومت کو ایسے کسی کردار پر مجبور کریں گے کہ جس کے ذریعے حکومت یہ سمجھے کہ بڑھتا ہوا عوامی ردعمل کسی احتجاجی تحریک کا رخ دھار کر ان کی حکومت کیلئے خطرہ بن سکے لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک طرف جہاں معاشی محاذ پر حکومت کی ناکامی عیاں ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھی کسی مردنی کا شکار ہے۔ اپنا کردار محض اخباری بیانات احتجاج کیلئے اعلانات اور ٹی وی ٹکرز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا دو روز قبل منعقدہ سربراہی اجلاس ایک اور سربراہی اجلاس کے اعلان پر مؤخر ہوا اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ 6 دسمبر کو بلایا جانے والا سربراہی اجلاس عملی اقدامات کے حوالے سے اہم ہوگا اور ان عملی اقدامات کے حوالے سے اجلاس میں شامل جماعتوں کو کہا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف کسی حتمی اعلان اور اقدام کے حوالے سے اپنی جماعتوں کے ذمہ داران کو اعتماد میں لیں ۔

 مذکورہ اجلاس میں میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کو ملنے والی عدالتی سزائوں کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ پر بھی غورو غوض کیا گیا اور اس حوالے سے بھی کسی مؤثر لائحہ عمل کے اعلان کی بجائے کہا گیا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر دل دکھی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ اپنے کردار سے اپنا اعتماد بحال کرے۔ عدالتی فیصلوں کے حوالے سے آنے والی آڈیو ویڈیو اور بیان حلفی کے عمل سے ملک میں ایک نئی صورتحال تو پیدا ہوگئی ہے اور خود عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے اپوزیشن یہ تاثر دینے میں سرگرم ہے کہ یہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر نہیں دبائو کا نتیجہ ہیں۔ اس حوالے سے خود موجودہ چیف جسٹس جسٹس گلزار کا لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آنے والا بیان اہم ہے کہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہوتے ہیں اورکوئی ہم پر نہ اثر انداز ہوا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ 

 جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کے آپشنز کو بروئے کار لانے کا سوال ہے تو حالات و واقعات کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اس میں سنجیدہ نہیں اور ان کا ٹارگٹ اب آنے والے انتخابات اور ان انتخابات کی شفاف اور آزادانہ حیثیت ہے جس کا اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی جانب سے مسلسل زور بھی دیا جا رہا ہے مگر مولانا فضل الرحمن کا ٹارگٹ حکومت ہے اور حکومت کے خاتمہ کیلئے وہ کسی انتہائی اقدام کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اجتماعی استعفوں کا سوال ہے تو پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ( ن) بھی اس آپشن کے حوالے سے یکسو نہیں اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اجتماعی استعفوں کے آپشن کو بروئے کار لا کر حکومت کو ایوان کے اندر واک اوور دینے والی بات ہے تاکہ وہ یہاں من مرضی سے قانون سازی کرنے اور آنے والے انتخابات میں بھی اپنا راستہ ہموار کرے۔البتہ لانگ مارچ کے آپشن بارے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو دبائو میں لانے کیلئے اس پر پیش رفت ممکن ہے لیکن خود مسلم لیگ (ن) بھی اس سوال پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ۔ 

بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ جماعت لندن سے پارٹی کے قائد نوازشریف کی ہدایات کی پابند ہیں لیکن عملاً وہ اس حوالے سے پیشرفت کرتی بھی نظر نہیں آ رہی، حکومت سے نجات کیلئے ایک اور آئینی اور سیاسی آپشن ان ہائوس تبدیلی کا ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اپوزیشن کی اہم جماعتوں کو اس حوالے سے سگنل بھی دیئے جا رہے ہیں، مگر مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے گو مگو کا شکار ہے اور پیپلزپارٹی اس کیلئے تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ ایسی صورتحال میں اپنی عدم کارکردگی کے بحران سے دوچار حکومت اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان پر احسان ہوگا اور وہ یہ کچھ سکیں گے کہ انہیں وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا ۔ جہاں تک پنجاب میں عدم اعتماد کی بات ہے تو یہ بھی خارج از امکان نہیں مگر مسلم لیگ (ن) اسے بھی اپنے لئے فائدہ مند نہیں سمجھتی جبکہ پیپلزپارٹی پنجاب اور مرکز دونوں میں عدم اعتماد کیلئے کھلے طور پر اس کی حامی ہے اور مدد کیلئے تیار ہے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ عوام میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف مایوسی اور بے چینی بڑے احتجاج کا رخ اس لئے اختیار نہیں کر پا رہی کہ خود اپوزیشن بھی اپنے ساکھ کے بحران سے دوچار ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اپوزیشن کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بن رہی لہٰذا جب تک اپوزیشن جماعتیں خود کشتیاں جلا کر میدان میں نہیںآئیں نہ تو عوام کی تائید انہیں مل سکتی ہے اور نہ ہی حکومت پر کوئی سیاسی دبائو آئے گا۔

 لہٰذا اس سے کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ سربراہی اجلاس بے نتیجہ رہنے کے بعد6دسمبر کو بلائے جانے والے سربراہی اجلاس سے بھی کوئی بڑی توقعات قائم نہیں کی جا سکتیں ،البتہ قومی سیاست میں ایشوز کی بجائے نان ایشوز کو اجاگر کرنے کا رحجان حکومت کیلئے کسی حد تک معاون ضروررہا ہے لیکن اس کا اصل نقصان انہیں آنے والے انتخابات میں پتہ چلے گا جب انہیں اپنی کارکردگی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگی اور لوگوں کو فیصلہ ان کی اس کارکردگی کی بناء پر ہونا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔