اپوزیشن :ساکھ کے بحران سے دو چار
معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا اورعوامی سطح پر لوگوں کے اندر مایوسی اور بے چینی کا کوئی بھی مداوا کرنے اور ان کی آواز سننے کو تیار نہیں۔حکومت کی جانب سے تو اب وہ دعوے بھی ختم ہو کر رہ گئے ہیں جن میں خود وزیراعظم عمران خان اور حکومتی ذمہ داران، مہنگائی کے ذمہ داران خصوصاً منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں ان کے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے اور مشکل صورتحال سے نکلنے کی امید دلاتے نظر آتے تھے۔ لہٰذا اسی صورتحال میں ہمیشہ اپوزیشن جماعتیں اپنا کوئی مؤثر اور فعال کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں۔ لوگ ان سے امیدیں اور توقعات باندھتے نظر آئے تھے کہ وہ ان کی آواز بن کر مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف آواز اٹھا کر حکومت پر دبائو بڑھا کر حکومت کو ایسے کسی کردار پر مجبور کریں گے کہ جس کے ذریعے حکومت یہ سمجھے کہ بڑھتا ہوا عوامی ردعمل کسی احتجاجی تحریک کا رخ دھار کر ان کی حکومت کیلئے خطرہ بن سکے لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک طرف جہاں معاشی محاذ پر حکومت کی ناکامی عیاں ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھی کسی مردنی کا شکار ہے۔ اپنا کردار محض اخباری بیانات احتجاج کیلئے اعلانات اور ٹی وی ٹکرز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا دو روز قبل منعقدہ سربراہی اجلاس ایک اور سربراہی اجلاس کے اعلان پر مؤخر ہوا اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ 6 دسمبر کو بلایا جانے والا سربراہی اجلاس عملی اقدامات کے حوالے سے اہم ہوگا اور ان عملی اقدامات کے حوالے سے اجلاس میں شامل جماعتوں کو کہا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف کسی حتمی اعلان اور اقدام کے حوالے سے اپنی جماعتوں کے ذمہ داران کو اعتماد میں لیں ۔
مذکورہ اجلاس میں میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کو ملنے والی عدالتی سزائوں کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ پر بھی غورو غوض کیا گیا اور اس حوالے سے بھی کسی مؤثر لائحہ عمل کے اعلان کی بجائے کہا گیا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر دل دکھی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ اپنے کردار سے اپنا اعتماد بحال کرے۔ عدالتی فیصلوں کے حوالے سے آنے والی آڈیو ویڈیو اور بیان حلفی کے عمل سے ملک میں ایک نئی صورتحال تو پیدا ہوگئی ہے اور خود عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے اپوزیشن یہ تاثر دینے میں سرگرم ہے کہ یہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر نہیں دبائو کا نتیجہ ہیں۔ اس حوالے سے خود موجودہ چیف جسٹس جسٹس گلزار کا لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آنے والا بیان اہم ہے کہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہوتے ہیں اورکوئی ہم پر نہ اثر انداز ہوا ہے اور نہ ہو سکے گا۔
جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کے آپشنز کو بروئے کار لانے کا سوال ہے تو حالات و واقعات کا رخ یہ بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اس میں سنجیدہ نہیں اور ان کا ٹارگٹ اب آنے والے انتخابات اور ان انتخابات کی شفاف اور آزادانہ حیثیت ہے جس کا اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی جانب سے مسلسل زور بھی دیا جا رہا ہے مگر مولانا فضل الرحمن کا ٹارگٹ حکومت ہے اور حکومت کے خاتمہ کیلئے وہ کسی انتہائی اقدام کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اجتماعی استعفوں کا سوال ہے تو پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ( ن) بھی اس آپشن کے حوالے سے یکسو نہیں اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اجتماعی استعفوں کے آپشن کو بروئے کار لا کر حکومت کو ایوان کے اندر واک اوور دینے والی بات ہے تاکہ وہ یہاں من مرضی سے قانون سازی کرنے اور آنے والے انتخابات میں بھی اپنا راستہ ہموار کرے۔البتہ لانگ مارچ کے آپشن بارے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو دبائو میں لانے کیلئے اس پر پیش رفت ممکن ہے لیکن خود مسلم لیگ (ن) بھی اس سوال پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ۔
بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ جماعت لندن سے پارٹی کے قائد نوازشریف کی ہدایات کی پابند ہیں لیکن عملاً وہ اس حوالے سے پیشرفت کرتی بھی نظر نہیں آ رہی، حکومت سے نجات کیلئے ایک اور آئینی اور سیاسی آپشن ان ہائوس تبدیلی کا ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اپوزیشن کی اہم جماعتوں کو اس حوالے سے سگنل بھی دیئے جا رہے ہیں، مگر مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے گو مگو کا شکار ہے اور پیپلزپارٹی اس کیلئے تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ ایسی صورتحال میں اپنی عدم کارکردگی کے بحران سے دوچار حکومت اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان پر احسان ہوگا اور وہ یہ کچھ سکیں گے کہ انہیں وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا ۔ جہاں تک پنجاب میں عدم اعتماد کی بات ہے تو یہ بھی خارج از امکان نہیں مگر مسلم لیگ (ن) اسے بھی اپنے لئے فائدہ مند نہیں سمجھتی جبکہ پیپلزپارٹی پنجاب اور مرکز دونوں میں عدم اعتماد کیلئے کھلے طور پر اس کی حامی ہے اور مدد کیلئے تیار ہے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ عوام میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف مایوسی اور بے چینی بڑے احتجاج کا رخ اس لئے اختیار نہیں کر پا رہی کہ خود اپوزیشن بھی اپنے ساکھ کے بحران سے دوچار ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اپوزیشن کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بن رہی لہٰذا جب تک اپوزیشن جماعتیں خود کشتیاں جلا کر میدان میں نہیںآئیں نہ تو عوام کی تائید انہیں مل سکتی ہے اور نہ ہی حکومت پر کوئی سیاسی دبائو آئے گا۔
لہٰذا اس سے کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ سربراہی اجلاس بے نتیجہ رہنے کے بعد6دسمبر کو بلائے جانے والے سربراہی اجلاس سے بھی کوئی بڑی توقعات قائم نہیں کی جا سکتیں ،البتہ قومی سیاست میں ایشوز کی بجائے نان ایشوز کو اجاگر کرنے کا رحجان حکومت کیلئے کسی حد تک معاون ضروررہا ہے لیکن اس کا اصل نقصان انہیں آنے والے انتخابات میں پتہ چلے گا جب انہیں اپنی کارکردگی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگی اور لوگوں کو فیصلہ ان کی اس کارکردگی کی بناء پر ہونا ہے۔