چھوٹے چھوٹے دانے
کسی جنگل میں ایک ننھی چیونٹی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ ننھی چیونٹی کی ماں جب تک صحت مند تھی اپنے اور ننھی چیونٹی کے لئے مزے دار دانے لاتی، لیکن جب اس کی ماں بیمار اور بوڑھی ہو گئی تو دانہ لانے کی ذمے داری ننھی چیونٹی پر آ پڑی۔
اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ برسات سے پہلے بہت سا دانہ جمع کرنا ضروری ہے تاکہ سردیوں میں آرام رہے اور خوراک بھی آسانی سے ملتی رہے۔ ننھی نے پہلے دن بہت محنت کی اور بہت دور سے چند دانے گھر تک لے جا سکی۔ پھر اور دانے لانے سے انکار کر دیا۔
اس کی ماں نے فکر مند لہجے میں کہا!
’’ننھی! صرف ان چند دانوں سے تو کچھ نہ ہوگا۔ آخر ہم سردیوں میں اپنا پیٹ کیسے بھریں گے۔ اس وقت خوراک بالکل غائب ہو گی‘‘۔
ننھی نے کہا’’یہ بہت مشکل کام ہے۔ میں تو صرف چند دانے لا سکتی ہوں اس سے زیادہ نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر ننھی سو گئی۔
اگلے دن وہ پھر دانوں کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس نے سوچا کہ میں اب بڑے بڑے دانے اپنے گھر میں جمع کروں گی۔ اسے ایک درخت کے قریب بہت سی چیونٹیاں جاتی نظر آئیں۔ جب وہ درخت کے قریب پہنچی تو وہاں روٹی کے بے شمار ٹکڑے پڑے تھے۔
اس نے دیکھا کہ جو چیونٹیاں چھوٹی ہیں وہ بڑی تیزی سے چھوٹے چھوٹے دانے منہ میں اٹھائے لے جا رہی ہیں۔ جبکہ بڑے چیونٹے بڑے بڑے دانے منہ میں دبائے جا رہے تھے۔ اس نے ایک بڑا سا دانہ منہ میں پکڑا اور چل پڑی۔ لیکن ابھی چند قدم چلی تھی کہ تھک گئی۔
اس دوران ایک بوڑھی چیونٹی کی نظر ننھی پر پڑی اس نے کہا ’’بھئی ننھی کیا بات ہے‘‘؟ اس نے سارا قصہ سنایا۔ بڑی خالہ ہنس پڑیں۔ بڑی خالہ ننھی چیونٹی کو ایک درخت کے قریب لے گئی جہاں ٹھنڈی چھائوں تھی۔
بڑی خالہ نے چھوٹی چیونٹیوں کی طرف اشارہ کیا’’تم بھی ان کی طرح پھرتی سے کام کرو اور چھوٹے دانے گھر لے جائو بڑے دانے تم نہیں لے جا سکتیں‘‘۔
اچھا دیکھو ننھی! تم چھوٹے دانے میرے گھر پہنچائو اور میں بڑے بڑے دانے تمہارے گھر لے کر چلتی ہوں، لیکن ایک شرط ہے‘‘۔
خالہ! مجھے ہر شرط منظور ہے‘‘ ننھی خوش ہو کر بولی۔
’’تم ہر روز تین گھنٹے کام کروگی‘‘۔ خالہ جان نے شرط بتائی تو ننھی نے فوراً کہا کہ اسے یہ شرط منظور ہے۔
دن گزرتے گئے چیونٹی پابندی سے روزانہ چھوٹے چھوٹے دانے خالہ جان کے گھر جمع کرتی اور خالہ جان بڑے بڑے دانے ننھی کے گھر لے جاتیں۔
ننھی کی ماں خالہ جان سے بہت خوش تھی کہ خوراک جمع کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ جب ننھی ذرا آرام کرتی تو خالہ جان فوراً اسے اٹھنے اور پابندی کرنے کی تاکید کرتیں۔
’’ننھی! بس اب دانے جمع کرنا بند کر دو‘‘۔ ایک دن خالہ جان نے ننھی سے کہا۔’’خالہ جان! میں کچھ دانے اور جمع کرنا چاہتی ہوں‘‘، ننھی نے جواب دیا۔ اصل میں ننھی چاہتی تھی کہ خالہ جان بڑے بڑے دانے اس کے گھر جمع کرتی رہیں۔ ’’بس ننھی! خوراک بہت زیادہ جمع ہو گئی ہے، اتنی کافی ہے‘‘۔ خالہ جان نے ننھی کو سمجھایا تو اس نے بات مان لی۔ پھر ننھی اور خالہ جان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئیں۔
دن گزرتے رہے۔ ننھی کے ہاں بہت سی خوراک جمع تھی۔ خوراک کے بڑے بڑے دانے دیکھ کر ننھی خالہ جان کی شکر گزار تھی۔ ایک دن جب سردیاں زوروں پر تھیں۔ سب جانور اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک ننھی کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ننھی نے دروازہ کھولا تو خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی۔ مہربان خالہ جان سامنے کھڑی تھیں۔
ننھی نے جلدی سے انہیں اندر بلایا اور ان کی خوب خاطر کی۔ اس کی ماں بھی خالہ جان کی بہت شکر گزار تھیں۔
’’خالہ جان! آپ کی بہت بہت مہربانی‘‘ ننھی نے خالہ جان سے کہا۔’’کیوں ننھی! کس بات کی مہربانی‘‘؟ خالہ جان حیرت سے بولیں۔
’’خالہ جان! آپ نے یہ اتنی ساری خوراک جو ہمیں دی‘‘۔ ننھی نے خوراک کے بڑے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔
’’اچھا! خالہ جان نے قہقہہ لگا کر کہا’’ لیکن تم نے وہ خوراک تو دیکھی ہی نہیں جو میں نے گودام میں جمع کی ہے، جو تم لائی تھیں‘‘۔
’’خالہ جان! وہ تو چھوٹے چھوٹے دانے تھے ان کے مقابلے میں ان بڑے دانوں کا کیا مقام ہے‘‘۔
’’خود دیکھو گی تو پتا چلے گا کہ کس کی خوراک زیادہ ہے۔ وہ جو تم نے جمع کی تھی یا یہ بڑے بڑے دانے جو میں نے تمھارے گھر میں جمع کئے ہیں‘‘۔ خالہ جان نے کہا اور اس کی ماں سے اجازت لی کہ وہ ننھی کو اپنے گھر لے جا رہی ہیں تاکہ اسے خوراک دکھا سکیں۔ اس کی ماں نے اجازت دے دی اور خالہ جان ننھی کو لے کر اپنے گھر روانہ ہو گئیں۔
’’ارے خالہ جان!‘‘ ننھی کے منہ سے حیرت کے مارے چیخ نکل گئی۔’’کیوں ننھی! دیکھا تم نے کتنی خوراک جمع کی ہے۔ اب بتائو وہ خوراک زیادہ تھی یا یہ چھوٹے چھوٹے دانے‘‘ خالہ جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا’’ خالہ جان! میں ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ میں اتنی ساری خوراک جمع نہیں کر سکتی‘‘۔ اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔
دیکھو ننھی! خالہ جان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ’’ یہ سب خوراک تم نے جمع کی تھی۔ یہ اس لئے بہت زیادہ ہے کہ تم نے ایک مہینے میں ہر روز بہت محنت اور ایمانداری سے کام کیا‘‘۔
تم نے کام کے دوران ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔ تم نے کام بڑی باقاعدگی سے مسلسل کیا۔ یہ اس کا کمال ہے۔ یاد رکھو محنت اور کام کو باقاعدگی سے کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ اتنی بڑی کامیابی کہ تم حیران ہو جائو گی۔ اتنی حیران جتنی کہ تم اب ہو رہی ہو‘‘۔
پھر خالہ جان نے ننھی کو اس ڈھیر میں سے کچھ خوراک اور دے دی۔ وہی ننھے اور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل خوراک، ننھی نے خالہ سے کہا۔
جزاک اللہ خیرا
’’اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے‘‘۔