ماحولیاتی آلودگی (آخری قسط)
جن گاڑیوں میں سے کالا دھواں نکلتا ہے، پولیس والے ان گاڑیوں کو روکتے کیوں نہیں؟ ایسی گاڑیوں کا چالان ہونا چاہیے۔ ہیں نا آپا؟۔
ایمن: تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ اب ذرا اس شور کو دیکھو جو نہ ہمیں گھر میں چین سے بیٹھنے دیتا ہے اور نہ گھر سے باہر کانوں کو آرام ملتا ہے۔ دیکھو ہمارے پڑوسیوں نے کتنی اونچی آواز میں میوزک لگا رکھا ہے۔ کان کے پردے پھٹنے والے ہیں۔ یہ شور شرابا بھی آلودگی کی ایک قسم ہے۔
حامد: ہاں! مجھے یاد آیا، ٹیچر نے بتایا تھا اسے Noise Pollutionکہتے ہیں۔ اونچی آواز میں میوزک سننا، گاڑیوں کے کان پھاڑنے والے ہارن، پھیری والوں کا چلّا چلّاکر سودا بیچنا اور گاہکوں کو متوجہ کرنا، کلاس اور بریک میں ہونے والا بے ہنگم شور بھی تو اِسی آلودگی کا حصہ ہے۔
حامد: آپا! ٹیچر ایک اور آلودگی کے بارے میں بھی بتا رہی تھیں۔ انہوں نے اسے سمندری آلودگی کہا تھا۔ ذرا اس کے بارے میں بھی کچھ بتایئے؟۔
ایمن: ہاں! یاد کرو، تم تو سمندر کے کنارے گئے تھے۔ کتنی خوبصورت جگہ تھی۔ پانی کی لہریں آ رہی تھیں اور ساحل سے ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں، لیکن ذرا سوچو، سمندر کے کنارے لوگوں نے کتنا کوڑا کرکٹ پھینکا ہوا تھا۔ خالی ڈبے، تھیلیاں اور چھلکے سب ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ پچھلے دنوں سمندری جہاز کا تیل سمندر میں بہہ گیا تھا۔ یہ اتنی افسوسناک آلودگی تھی کہ بہت سی مچھلیاں اور پانی میں رہنے والے جانور بیچارے مر گئے تھے۔ یہ طرح طرح کی آلودگی دنیا کے رہنے والوں کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے اور اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں بہت نقصان اٹھائیں گی۔
حامد: آپا! اب مجھے ہر قسم کی آلودگی کے بارے میں بہت اچھی طرح پتہ چل گیا ہے میں اپنا ہوم ورک کرنے جا رہا ہوں۔
ایمن: ہوم ورک تو کر ہی لو گے، لیکن آج ہم نے آلودگی کے بارے میں جو باتیں کی ہیں، ہمیں چاہیے زندگی میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے تاکہ دنیا میں کسی قسم کی آلودگی پھیلانے کی وجہ نہ بنیں۔