ماحولیاتی آلودگی (آخری قسط)

تحریر : فاطمہ مجتبیٰ


جن گاڑیوں میں سے کالا دھواں نکلتا ہے، پولیس والے ان گاڑیوں کو روکتے کیوں نہیں؟ ایسی گاڑیوں کا چالان ہونا چاہیے۔ ہیں نا آپا؟۔

 ایمن: تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ اب ذرا اس شور کو دیکھو جو نہ ہمیں گھر میں چین سے بیٹھنے دیتا ہے اور نہ گھر سے باہر کانوں کو آرام ملتا ہے۔ دیکھو ہمارے پڑوسیوں نے کتنی اونچی آواز میں میوزک لگا رکھا ہے۔ کان کے پردے پھٹنے والے ہیں۔ یہ شور شرابا بھی آلودگی کی ایک قسم ہے۔

حامد: ہاں! مجھے یاد آیا، ٹیچر نے بتایا تھا اسے Noise Pollutionکہتے ہیں۔ اونچی آواز میں میوزک سننا، گاڑیوں کے کان پھاڑنے والے ہارن، پھیری والوں کا چلّا چلّاکر سودا بیچنا اور گاہکوں کو متوجہ کرنا، کلاس اور بریک میں ہونے والا بے ہنگم شور بھی تو اِسی آلودگی کا حصہ ہے۔

حامد: آپا! ٹیچر ایک اور آلودگی کے بارے میں بھی بتا رہی تھیں۔ انہوں نے اسے سمندری آلودگی کہا تھا۔ ذرا اس کے بارے میں بھی کچھ بتایئے؟۔

ایمن: ہاں! یاد کرو، تم تو سمندر کے کنارے گئے تھے۔ کتنی خوبصورت جگہ تھی۔ پانی کی لہریں آ رہی تھیں اور ساحل سے ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں، لیکن ذرا سوچو، سمندر کے کنارے لوگوں نے کتنا کوڑا کرکٹ پھینکا ہوا تھا۔ خالی ڈبے، تھیلیاں اور چھلکے سب ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ پچھلے دنوں سمندری جہاز کا تیل سمندر میں بہہ گیا تھا۔ یہ اتنی افسوسناک آلودگی تھی کہ بہت سی مچھلیاں اور پانی میں رہنے والے جانور بیچارے مر گئے تھے۔ یہ طرح طرح کی آلودگی دنیا کے رہنے والوں کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے اور اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں بہت نقصان اٹھائیں گی۔

حامد: آپا! اب مجھے ہر قسم کی آلودگی کے بارے میں بہت اچھی طرح پتہ چل گیا ہے میں اپنا ہوم ورک کرنے جا رہا ہوں۔

ایمن: ہوم ورک تو کر ہی لو گے، لیکن آج ہم نے آلودگی کے بارے میں جو باتیں کی ہیں، ہمیں چاہیے زندگی میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے تاکہ دنیا میں کسی قسم کی آلودگی پھیلانے کی وجہ نہ بنیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔