شاہینوں کی فتوحات جاری۔۔۔۔ ابھی کرکٹ کے امتحان اور بھی ہیں! بنگلہ دیش کے خلاف ٹی 20 میچز پاکستانی ٹیم کے لیے شاندار رہے
9 میچز، 9 مین آف دی میچ،ٹیم سے غیر مستقل مزاجی کا تاثر ختم
صحرائی میدانوں میں تاریخ ساز فتوحات سمیٹنے والے شاہینوں نے بنگلادیش اڑان بھری اور کامیابیوں کا سفر جاری رکھا۔ تین ٹی 20 میچز کی سیریز میں وائٹ واش کرنے والی بابر الیون کے ’’ابھی امتحان اور بھی ہیں‘‘۔
شارٹ فارمیٹ کے بعد طویل دورانیے کی کرکٹ شروع ہو چکی ہے، چٹاگانگ ٹیسٹ کا آج تیسرا روز ہے بنگلا دیش نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ ابتداء میں میزبان ٹیم لڑکھڑائی ، 19پر پہلی، 33 پر دوسری ،47پر تیسری اور 49 رنز پر چوتھی وکٹ گر گئی۔ حسن علی نے تباہ کن بائولنگ کرتے ہوئے 114 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر لٹن داس سمیت 5 شکار کیے اور اپنے نقادوں کو بہترین پرفارمنس سے جواب دے دیا۔ مشفق الرحیم کے91 رنز کی بدولت ٹوٹل340تک پہنچا۔ شاہین آفریدی اور فہیم اشرف نے دو، دو شکار کیے، ساجد خان کے ہاتھ ایک وکٹ لگی۔جواب میں ڈیبیو کرنے والے عبداللہ شفیق نے ناقابل شکست نصف سنچری کرکے کریئر کا تگڑا آغاز کیا۔ اسی طرح کی ہی دبنگ انٹری ڈالنے والے عابد علی نے بھی تجربہ کاری کا خوب مظاہرہ کیا۔ وہ دوسرے دن کے اختتام پر93 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔145رنز بغیر کسی نقصان کے اچھا آغاز ہے اور ٹارگٹ بھی یہی ہونا چاہیے کہ پہلی اننگز میں 500 کا مجموعہ ترتیب دے کر قابل اعتماد برتری حاصل کی جائے کیونکہ ایشائی اور خاص طورپر بنگلادیشی انتہائی ناقص وکٹ پر چوتھی اننگز میں معمولی ہدف بھی مشکل ترین ہو سکتا ہے۔
ٹیسٹ ٹیم رینکنگ میں بہتری اور بابر اعظم اور شاہین آفریدی کا ٹاپ ٹین میں ہونا، تجربہ کار اظہر علی، عابد علی، خود کپتان بابر اعظم، فواد عالم سمیت آل راؤنڈر فہیم اشرف کی ٹیم میں شمولیت بنگال ٹائیگرز کے خلاف چٹاگانگ ٹیسٹ سمیت دونوں میچز میں پاکستان کو نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ 11 میں سے10 ٹیسٹ جیتنے والے گرین کیپس کے موجودہ اسکواڈ کی بھی بنگلادیش پر دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ میزبان ٹیم کے اسٹار آل راؤنڈر شکیب الحسن کا انجری کا شکار ہونا، ٹی 20 کے کپتان محمود اللہ کا ٹیسٹ فارمیٹ سے ریٹائر ہونا ، ٹی 20 ورلڈ کپ اور اب ہوم سیریز میں مایوس کن کارکردگی اور پہلی اننگز میں مایوس کن آغاز کے بعد سینئر کھلاڑی مشفق الرحیم کا نروس 90 کا شکار ہونا بھی ٹیم بنگلادیش پر اضافی دباؤ ہے۔
بنگال ٹائیگرز کے خلاف چھوٹے فارمیٹ کے بڑے مقابلے بھی شاہینوں کے لیے شاندار بلکہ یادگار رہے۔ تین میچز کی سیریز میں ساتویں بار کلین سویپ کیا۔ رواں سال 31جولائی سے 22 نومبر تک 9 میچز میں الگ الگ قومی کرکٹرز کا مین آف دی میچ ہونا بہت حوصلہ افزا ہے۔ کیربینز کے دیس محمد حفیظ، پھر یو اے ای میں ٹی 20 ورلڈکپ کے دوران شاہین آفریدی، حارث رؤف، آصف علی، محمد رضوان اور شعیب ملک کے بعد حالیہ بنگلادیش کے خلاف حسن علی، فخر زمان اور پھر حیدر علی یعنی 9 میچز میں 9 پلیئرز کے مرد میدان بننے سے ٹیم پر غیر مستقل مزاج کا تاثر ختم ہو گیا۔ ساتھ ہی تمام ٹیموں کو پیغام مل گیا کہ قومی ٹیم میچ وِنرز سے بھری پڑی ہے۔ خاص طور پر بنگلا دیش کے خلاف سیریز کے تیسرے اور آخری ٹی 20 میچ کے آخری اوور نے شارٹ فارمیٹ کرکٹ کا لطف دوبالا کر دیا۔ آٹھ رنز کا دفاع کرتے قومی ٹیم تین اہم وکٹیں گنوا کر سنبھلی۔ محمد نواز نے بائولنگ کے بعد بیٹنگ صلاحیتوں کا لوہا سیریز کے دوسرے میچ میں بھی منوایا، خوبصورت چوکا لگا کر ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔ میچ کی بدلتی صورتحال ہی نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز، متحدہ عرب امارات سمیت بنگلا دیش کی الگ تھلگ کنڈیشنز اور پچزپر بااعتماد انداز میں کھیلنا اور کامیابیاں سمیٹنا بہت مثبت پہلو ہے۔
بابر اعظم 37 میچز میں قیادت سے اپنے پیش رو سرفراز احمد کے ہم پلہ ہونے کے ساتھ کامیابیوں کی شرح میں دو درجے بہتر ہو کر 14 ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ فتوحات کی شرح 62.16 فیصد کے ساتھ موجودہ کپتان بڑے بڑوں کیلئے خطرے کا نشان بن چکے ہیں۔
دنیا بھر میں کھیل اور کھلاڑی بہترین سفارتکار ہوتے ہیں، یہ بات بھی ٹی 20 سیریز میں ثابت ہوئی۔ دوسرے میچ میں شاہین آفریدی کے تھرو سے بنگالی اوپنر عفیف حسین کا زخمی ہونا اور اس پر قومی بائولر کا معذرت کرنا ’’اسپورٹس مین شپ‘‘ کی ایسی زندہ مثال بنی کہ جس کے اثرات گراؤنڈ سے باہر بھی دیکھے گئے۔ چشم فلک نے نظارہ کیا کہ میزبان بنگلادیش کو شکست فاش دینے والے قومی کرکٹرز کا پرتپاک استقبال ہوا، تاریخی لحاظ سے تلخیوں بھری یادیں رکھنے کے باوجود ڈھاکا کی سڑکوں پر ’’پاک بنگلا بھائی بھائی اور زندہ باد‘‘ کے نعرے لگے، دونوں ملکوں کے جھنڈے بھی شائقین کے ہاتھوں میں نظر آئے۔
بابر الیون کا اگلا محاذ ہوم سیریز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہے۔ آئندہ ماہ تین ٹی 20 اور تین ہی ون ڈے میچ کھیلنے وِیسٹ انڈیز کراچی آئے گی۔ شارٹ فارمیٹ کی اس طویل سیریز کے بعد 2022ء بھی ’’فُل آف گیم‘‘ ہو گا۔ پاکستان کرکٹ کے سپر برانڈ ’’پی ایس ایل‘‘ کا ساتواں ایڈیشن شروع ہو گا۔ پھر آسٹریلیا اور انگلینڈ کا ٹور شیڈول ہے جبکہ اکتوبر میں بغیر کھیلے راولپنڈی سے وطن واپس جانے والی ٹیم نیوزی لینڈ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ نومبر میں کینگروز کے دیس آٹھویں ٹی 20 ورلڈکپ کا میلہ سجنا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم اور تمام مینجمنٹ کو ٹی20 کے اس سپر میگا ایونٹ کی تیاری ہی مدنظر رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے ایشین طرز کی کنڈیشنز میں آ کر پہلی بار عالمی چیمپئن بننے والے آسٹریلیا سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انہوں نے کیسے ڈراپ اِن پچزپر پریکٹس کر کے یو اے ای میں خود کو کامیاب بنایا اور فاتح عالم کا تاج سر پرسجایا۔ اگرچہ یہ آئیڈیا نئے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کی اولین ترجیح میں ہے کہ قومی ٹیم ہی نہیں بلکہ ڈومیسٹک اور اسکول لیول تک کے کھلاڑیوں کو ڈراپ اِن پچزپر کھلایا جائے۔ پلیئرز کو ابتدا ہی میں آسٹریلیا، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر کی طرز کی پچز پر کھیلنے کا موقع دینا چاہیے۔ ایسی تیکھی، باؤنسی اور سوئنگ بائولنگ کے یہاں پر عادی بن جانے والے پاکستانی کرکٹر انگلش وکٹوں پربھی بڑے پراعتماد ہو کر کھیلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم اور مشکل فیصلے ہمیں نئے کمبی نیشن بنانے میں بھی کرنے چاہیں۔ 31 سے 41 سال کی بریکٹ والے شعیب ملک، محمد حفیظ، سرفراز اور افتخار احمد جیسے عمر رسیدہ کھلاڑیوں کا تجربہ اپنی جگہ، ان کے متبادل باصلاحیت اور با اعتماد پلیئرز کو تیار کرنا ہو گا۔ ویسے بھی 119 میچز کھیلنے والے محمد حفیظ اور 61 ٹی 20 انٹرنیشنلز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سرفراز احمد نے کینگروز کے دیس ایک میچ نہیں کھیلا۔ سب سے زیادہ اور کامیاب صرف افتخار احمد رہے جنہوں نے ٹی 20 کریئر کے 14 میں سے 3 میچ آسٹریلیا میں کھیلے اور ایک نصف سنچری سمیت 108رنز بنائے جبکہ بیس بیس اوور کے 124 میچ کھیلنے والے شعیب ملک کا آسٹریلیا میں کھیلنے کا تجربہ صرف ایک میچ کا ہے جس میں انہوں نے محض تین رنز بنائے تھے۔
نومبر سے پہلے تک اپنی سرزمین پر گراؤنڈز اور پچز کی تیاری سمیت جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پاور پلے کے درست استعمال، پاور ہٹرز کی تیاری، کھلاڑیوں کے درمیان مثبت مقابلہ بازی اور حوصلہ افزائی سمیت ڈیتھ اوورز کے سیشن ہمیں آنے والے ورلڈکپ ہی نہیں بلکہ ٹاپ رینک بھی بنا دیں گے۔ اس حوالے سے چیئرمین رمیز راجہ کا ایبٹ آباد سمیت ٹھنڈے علاقوں یعنی شمالی علاقہ جات میں عالمی معیار کے اسٹیڈیمز کی تعمیر و ترقی اور انہیں جلد از جلد ورکنگ میں لانے کا پلان بہت ہی زبردست ہو گا۔ جس سے تینوں فارمیٹ کے قومی کرکٹرز کو فائدہ تو ہوگا ہی، ساتھ ہی ساتھ سال بھر ناختم ہونے والے کرکٹ سیزن کا فائدہ بھی پاکستان کو ہو گا جس سے مئی جون کے مہینوں میں دنیا بھر کے کرکٹرز آرام کرنے کے بجائے پاکستان میں کھیلنے کو ترجیح دیں گے۔