دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس، پاکستان میں ذیابیطس خطرناک ، پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا،ماہرین سر جوڑ بیٹھے

تحریر : سید عمران علی


ملک میں’’ خاموش قاتل ‘‘ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، عوام الناس کی جانب سے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی نہ کرنے کی وجہ سے اعدادو شمار خطرناک ہوتے جارہے ہیں۔ماہرین امراض ذیابیطس کے مطابق ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ ہوگئی ہے ۔اس تشویش ناک صورتحال کے باعث ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ماہرین ذیابیطس کا کہنا ہے کہ ہمارا ہیلتھ سسٹم اس طرح کا نہیں ہے کہ ہم کروڑوں کی تعداد میں ذیابیطس کے شکار مریضوں کا علاج کرسکیں تاہم مستقل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو ذیابیطس کے موذی مرض سے بچنے کے لئے عوام آگاہی پھیلائی جائے تاکہ عوام الناس اس مرض سے بچ سکیں اور دوسروں کو اس سے بچانے کا ذریعے بھی بن سکیں۔ہر سال 14 نومبر کو ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ مختلف سیمینارز ،پریس کانفرنسز ،واک اور تشہیری مہمات چلاکر ذیابیطس سے بچاؤ کے لئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔اس سلسلے میں شہر قائد میں ڈائیبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر انتظام عالمی سطح کی دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔جس میں ملک کے نامور ماہر امراض ذیابیطس نے شرکت کی جبکہ بیرون ممالک کے ماہرین نے کانفرنس میں ویڈیو کے ذریعے ذیابیطس سے بچاؤ کے حوالے سے اپنے پیغام عوام تک پہنچائے۔

ڈائیبیٹک ایسوسی ایشن کے تحت ہونے والے سیمینار کے پہلے روز کے مہمان خصوصی سابق سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر کاظم حسین جتوئی تھے ، انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان سے عالمی وباء کورونا وائرس کا خاتمہ ہوا ہے ،اس کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران سندھ حکومت نے صوبے میں ایمبولینس سروس ،پیتھالوجی لیبارٹریز کے قیام کے علاوہ عوام کو ویکسی نیشن کی سہولیات بہتر انداز میں دی ہیں۔ڈاکٹر کاظم حسین جتوئی نے کہا کہ شوگر کی اہم وجہ فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ ہیں جو ہمارے ملک میں اس مرض کا باعث بن رہی ہیں۔کورونا وائرس کے دوران ہوم ڈلیوری کے ذریعے عوام نے فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کی بھرمار جاری رکھی ، جس کے باعث شوگر کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

 لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے عالمی ڈائیبیٹک کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذیابیطس کانفرنس میں کئی سالوں سے آرہا ہوں کیونکہ میں خود شوگر کا مریض ہو۔ مجھے ذیابیطس کا مرض ہوئے 32 سال ہوچکے ہیں ،لیکن میں احتیاط کے ساتھ اپنی معمولات زندگی گزار رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد میں نے سب سے پہلے احتیاط کرنا شروع کی ۔انہوں نے کہا کہ متوازن غذا،ورزش اور اپنی مانیٹرنگ لازمی کی جائے تاکہ شوگر کنٹرول میں رہ سکے۔انہوں نے کہاکہ میں شوگر کو بیماری نہیں کہتا بلکہ شوگر کو صرف کنٹرول کرنا ہوتا ہے جس کو بھی ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجائے وہ صرف اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھے اور اپنا طرز زندگی نارمل طرز پر جاری رکھے۔

عالمی ذیابیطس کانفرنس کے چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر زمان شیخ کا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ IDF انٹرنیشنل ڈایابیٹیس فیڈریشن نے حال میں IDF Worlds Atlas 2021 جاری کیا ہے پاکستان میں اس وقت 20 سال سے اُوپر کے تین کروڑ تیس لاکھ (33 Million) افراد ذیابیطس کا شکار ہیں بد قسمتی سے یہ 2019 کے IDF World Altas کے اعداد و شمار سے70% زیادہ ہیں اس وقت پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کا Prevalance 30.8% ہے۔ پاکستان اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کے تناسب سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق سال 2021 میں 4 لاکھ افراد ذیابیطس کی بیماری کی وجہ سے لقمہ اجل بن جائیں گے۔  پاکستانMiddle East,North Africa (MENA) Region سے تعلق رکھتا ہے اور اس ریجن میں اس لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ (11 Million) افراد IGT  (Impaired Glucose Tolerance)  یعنی Prediabetes  کا شکار ہیں ان کو بھی مکمل ذیابیطس ہونے کا خطرہ عنقریب لا حق ہے۔اس وقت ہمارے ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی کل تعداد تو ایک کروڑتیس لاکھ ہے مگر ان میں سے 88 لاکھ یعنی26.9%افراد کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے ان کا بروقت علاج نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے ذیابیطس کی پیچیدگیوں مثلاً دل کا دورہ،  فالج، گردوں کا فیل ہونا، نابینا پن اور ٹانگ کا کٹ جانا وغیرہ شامل ہے اگر اس مرحلے پر اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو یہ صورتحال اور زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بوجھ ڈاکٹروں، نرسوں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے دیگر پیشہ ور افراد کی تعلیم اور تربیت کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان سمیت مختلف تنظیموں کی حساسیت کے احساس کے بعد حکومت پاکستان اور سندھ حکومت اب بورڈ میں شامل ہیں اور ایچ سی پیز کی تربیت اور ذیابیطس کی روک تھام میں اپنا فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی کانفرنس انتہائی سائنسی اہمیت کی حامل ہے اور یہ نہ صرف طبی برادری بلکہ پاکستان کے عام لوگوں کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ذیابیطس کا مقابلہ کرنے میں بہت ذیادہ چیلنجز ہیں۔ ہمیں نہ صرف ذیابیطس کے انتظام میں جدید ترین رجحانات کو اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس وبا کو روکنے کے لیے اپنی توانائیاں بھی لگانی چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ذیابیطس کی اس وبائی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ذیابیطس کی مؤثر انتظامی حکمت عملیوں اور انٹرا یوٹرن ماحول سے شروع ہونے والی ذیابیطس کی روک تھام پر غور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ذیابیطس کی شکار حاملہ خواتین کو جلد تشخیص اور معیاری علاج کی پیشکش کی جائے۔ کانفرنس میں سوال جواب کا سیشن بھی کیا گیا جس میں ماہرین نے عوام کو ذیابیطس سے بچاؤ یا جن کو ذیابیطس کا مرض ہوچکا ہے ان کو اپنا طرز زندگی کیسے اختیار کرنا ہے اس حوالے سے مفید مشورے بھی دیئے۔کانفرنس کے آخری سیشن میں شعبہ نرسنگ کو تربیت فراہم کی گئی جس میں نرسز اور مڈ وائفز کو آگاہی اور تربیت فراہم کی گئی تاکہ وہ شوگر کے مریضوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی  پروفیسر زمان شیخ نے کانفرنس میں آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔

 عالمی ذیابیطس کانفرنس کے پیٹرن پروفیسر عبدالباسط نے کانفرنس سے خطاب میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3کروڑ 30لاکھ تک جاپہنچی ہے ،جو انتہائی سنگین صورتحال بن چکی ہے۔اگر اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو چند سالوں میں ذیابیطس کے مریضوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ذیابیطس کا مرض بڑھتا جارہا ہے جس کی روک تھام کے لئے ماہرین امراض ذیابیطس سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔ پیٹرن پروفیسر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان میں ہر چوتھا شخص ذیابیطس کا شکار ہے اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ ہر دوسرا شخص اس مرض کا شکار ہوگا۔ ذیابیطس سے بچاؤکے لئے عوام کو احتیاط اور آگہی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام صحت مند طرز زندگی اپنائیں ، ورزش کو اپنا معمول بنائیں ، کولڈڈرنکس اور جنک فوڈ سے اجتناب کریں تو اس بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں یا اس کی شدت کم کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا تقریباً88لاکھ افراد کو اپنے مرض کا علم نہیں ، جنہیں علم ہے ان میں سے چالیس فیصد کے پاس علاج کی سکت نہیں ، صرف دس فیصد اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ تمام افراد کی بیماری کی تشخیص کو یقینی بنایا جائے اور علاج کو آسان اور عام کیا جائے۔ پروفیسر عبدالباسط کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ آئندہ ہونے والی مردم شماری میں ایک خانہ صحت کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے تاکہ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کا اندازہ ہوسکے۔ شوگر کے حوالے سے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ کانفرنس کے پیٹرن پروفیسر عبدلباسط نے کہا کہ شوگر کے حوالے سے مرض بڑھتا جارہا ہے ،حال ہی میں جاری ہونے والے تازہ اعداد و شمار میں ملک مین تین کروڑ 30 لاکھ افراد میں ذیابیطس کا مرض پھیل چکا ہے ۔جس کی روک تھام کے لئے انتہائی اقدامات کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذیابیطس وہ وبا ہے جو دن بدن پھیلتی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ڈائیبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان اپنا ریکارڈ مکمل طور پر کمپیوٹر پر محفوظ کررہی ہے جس کے بعد تمام ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہوجائے گا اس کے علاوہ ہم نے ایک فارمیسی بھی کھولنے جارہے ہیں جہان پر شوگر کے مریضوں کو رعایتی قیمت کے ساتھ شوگر کی دوائیاں فراہم کی جاسکیں گی۔ان کامزید کہنا تھا کہDAP میں ڈائیبیٹک فٹ کلینک کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔

 تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئر پرسن سائنٹیفیک کمیٹی پروفیسر شبین ناز مسعود نے کہا کہ ذیابیطس کی اس وبائی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ذیابیطس کی مؤثر انتظامی حکمت عملیوں اور انٹرا یوٹرن ماحول سے شروع ہونے والی ذیابیطس کی روک تھام پر غور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ذیابیطس کی شکار خواتین کو جلد تشخیص اور معیاری علاج کی پیشکش کی جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی کانفرنس انتہائی سائنسی اہمیت کی حامل ہو گی اور یہ نہ صرف طبی برادری بلکہ پاکستان کے عام لوگوں کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ذیابیطس کا مقابلہ کرنے میں بہت ذیادہ چیلنجز ہیں۔ ہمیں نہ صرف ذیابیطس کے انتظام میں جدید ترین رجحانات کو اپنانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس وبا کو روکنے کے لیے اپنی توانائیاں بھی لگانی چاہئے۔

 دو روزہ کانفرنس میں ڈائیبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق صدر پروفیسر عبدالصمد شیرا (مرحوم ) کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا ،اس موقع پر مرحوم کی بیوہ پروفیسر نورجہاں صمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے جو اعدادو شمار جاری کئے گئے ہیں وہ الارمنگ ہیں۔پروفیسر عبداصمد شیرا نے ملک میں شوگر کے حوالے سے بہت کام کئے ہیں جبکہ آگاہی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ان کے جانے کے بعد اس کی ذمہ داریاں پروفیسر زمان شیخ ،پروفیسر عبدالباسط اور پروفیسر شبین ناز مسعود کے کاندھوں پر آگئی ہے جسے وہ احسن انداز میں نبھارہے ہیں۔ڈاکٹر نور جہاں صمد کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ذیابیطس کے حوالے سے تازہ اعدادوشمار جاری ہوئے ہیں جس میں شوگر کے مریضوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے ،اس حوالے سے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہئے کہ وہ فاسٹ فوڈ،جبک فوڈز کھانے سے مکمل گریز کریں تاکہ شوگر کے مرض میں قابو پانے میں آسانی پیدا ہو۔انہوں نے کہا کہ شوگر کے خاتمے کے لئے ہم سب کو مل کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

 دو روزہ عالمی ذیابیطس کانفرنس میں سابق سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر کاظم جتوئی ،لیفٹننٹ جنرل(ر) معین الدین حیدر، پروفیسر زمان شیخ ،پروفیسر عبدالباسط، پروفیسر شبین ناز مسعود ،پروفیسر بیکھا رام ،پروفیسر اعجاز وہرہ ،پروفیسر مشہود عالم شاہ ،پروفیسر اشعر فواد،ڈائیبیٹک ایسوسی ایشن کے صدر میاں مختار، سمیت ڈاکٹروں کی بڑی تعداد میڈیکل میں زیر تعلیم طالبات کے علاوہ شعبہ نرسنگ کی نرسز اور مڈوائفز نے بھی شرکت کی۔ دو روزہ عالمی ذیابیطس کانفرنس میں مختلف فارماسوٹیکل کمپنیوں کے اسٹالز بھی لگے ہوئے تھے۔

انٹرنیشنل ڈائیبیٹیس فیڈریشن (IDF)کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن‘IDFکے الیکٹیڈ پریذیڈنٹ پروفیسر اختر حسین‘ ڈائیبیٹیس ان ایشاء اسٹڈی گروپ(DASG) کے صدر مصباح کامل‘MENA-IDFکے چیئرمین پروفیسر جمال بلقادر نے بھی خطاب کیا۔

PSIM (پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن ) اور PCDA (پرائمری کیئر ڈائیبیٹیس ایسوسی ایشن) نے اس پروگرام میں بھرپور شرکت کی۔

اس کانفرنس میں جرمنی ‘ ناروے ‘ مراکش‘ سعودی عرب‘ دوبئی‘ مصر ‘ برطانیہ ‘ لبنان‘ انڈیا اور بنگلہ دیش کے کئی ماہرین ذیابیطس نے بھی آن لائن شرکت کی۔

٭٭٭٭٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔