آشیاں جل گیا، گلستان لٹ گیا، حبیب ولی محمد : ایک لاثانی گلوکار

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


حبیب ولی محمد کی مشہور غزلیں-1لگتا نہیں ہے دل مرا-2نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں-3یہ نہ تھی ہماری قسمت-4آج جانے کی ضد نہ کرو-5مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں-6کب میرا نشیمن اہل چمنمقبول ملی نغمات-1روشن درخشاں، نیرو تاباں-2اے نگار وطن تو سلامتِ رہے-3سوہنی دھرتی اللہ رکھے-4لُہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے

1970ء میں اقبال شہزاد کی فلم ’’بازی‘‘ ریلیز ہوئی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے فلم کی کہانی، گیت اور موسیقی لاجواب تھی۔ویسے تو مالا اور مہدی حسن کے گیت بھی بڑے اچھے تھے لیکن ایک ایسا گلو کار،بھی تھا جس نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ روح میں اترنے والی اس آواز نے اہل موسیقی کو مسحور کر دیا۔ ان کا نام تھا حبیب ولی محمد۔

پہلے’’بازی‘‘ کی بات ہو جائے۔ یہ اداکارہ نشو کی پہلی فلم تھی۔ ان کے ساتھ محمد علی اور ندیم جیسے بڑے اداکاروں نے کام کیا تھا۔ نشو کی خوش بختی تھی کہ پہلی ہی فلم میں انہیں ایسے لیجنڈ اداکاروں کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ حبیب ولی محمد نے اس فلم کے دو نغمات گائے جنہوں نے مقبولیت کی نئی تاریخ رقم کی۔ سنگیت کار سہیل رعنا نے بھی اپنے فن کے وہ کمالات دکھائے کہ انہیں جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ موسیقاربھٹاچاریہ نے بھی اس فلم کی موسیقی دی۔ فلم کے گیت ’’آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا‘‘ اور ’’راتیں تھی چاندنی جوبن پہ تھی بہار‘‘ بے پناہ مقبول ہوئے۔

اس کے گیت راز الٰہ آبادی، وحید قریشی اور فیاض ہاشمی نے تحریر کئے تھے۔ گلوکاروں میں حبیب ولی محمد کے علاوہ مالا، آئرن پروین، احمد رشدی اور مہدی حسن بھی شامل تھے۔ مالا کا گایا ہوا یہ گانا ’’ٹھہر بھی جائو صنم‘‘ اورمہدی حسن کا یہ گیت’’دنیا کو اب کیا سمجھائیں‘‘ بہت پسند کئے گئے لیکن حبیب ولی محمد سب پر چھا گئے۔ کہنا یوں چاہئے کہ جس طرح فلم ’’بازی‘‘ میں سکرپٹ کے مطابق محمد علی نے جان کی قربانی دے کر بازی جیتی تھی، اسی طرح حبیب ولی محمد نے بھی گلو کاری کی بازی اپنے نام کرلی۔

حبیب ولی محمد 16جنوری1921ء کو رنگون (برما، اب میانمر) میں پیدا ہوئے۔ پلے بیک گائیک کے علاوہ وہ غزل گو بھی تھے اور بزنس مین بھی۔ ان کا تعلق ایک قدامت پرست میمن فیملی سے تھا جو بعد ازاں ممبئی شفٹ ہو گئی۔ بچپن میں حبیب ولی محمد کو قوالی سننے کا بڑا شوق تھا لیکن پھر انہوں نے نصابی تعلیم کو ترجیح دی۔ انہوں نے 1947ء میں امریکہ سے ایم بی اے کیا اور پھر ممبئی میں دس برس تک مقیم رہے۔اس کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ ان کے بھائی اشرف تابانی سندھ کے گورنر رہے۔ جوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ استاد لطافت حسین، استاد فیاض خان کے بیٹے تھے۔ کالج کے زمانے میں وہ موسیقی کی تقریبات میں بھرپور شرکت کرتے رہے۔ 1941ء میں حبیب ولی محمد کو موسیقی کے ایک مقابلے میں پہلا انعام دیا گیا۔ اس مقابلے میں1200گلو کاروں نے حصہ لیا تھا اور ان میں مکیش چند ماتھر بھی شامل تھے۔ اس مقابلے میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی غزل ’’لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں‘‘ گائی تھی۔ جس پر انہیں  پہلے انعام سے نوازا گیا تو ان کے اعتماد میں بے حد اضافہ ہوا۔ انہوں نے غزل گائیکی میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ امریکہ میں قیام کے دوران ان کا موسیقی سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ وہ دشتِ تنہائی کے مسافر بن گئے اور انہیں ممبئی میں منعقد ہونے والی موسیقی کی تقریبات شدت سے یاد آنے لگیں۔ انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد اپنی آواز میں غزلوں کا گرامو فون ریکارڈ تیار کیا اور میدان میں آ گئے۔

ریکارڈ کے ایک طرف بہادر شاہ ظفر اور دوسری طرف مرزا غالب کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ لیکن یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ بھارتی عوام نے ان کی پذیرائی نہیں کی اور یہ ریکارڈ فروخت نہیں ہوئے۔ البتہ اس وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ مینا کماری ان کی غزل گائیکی سے بہت متاثر ہوئیں اور چونکہ وہ اس وقت ریڈیو سیلون سے وابستہ تھیں، اس لئے انہوں نے حبیب صاحب کی غزلیں کئی بار نشر کیں۔ اس سے حبیب ولی محمد کے ریکارڈز کی فروخت میں اضافہ ہوا اور وہ ایک نامی گرامی شخصیت بن گئے۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد حبیب ولی محمد کا خاندان پاکستان آ گیا اور یہاں ایک صنعتی گروپ قائم کیا۔ انہوں نے خاندان کے کاروبار کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کر دی اور جو وقت بچتا تھا وہ غزلوں اور فلمی گیتوں کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ حبیب صاحب نے موسیقی کو کبھی پیشہ نہیں بنایا۔ پھر بھی انہوں نے میوزک کمپنیوں کیلئے غزلیں گائیں۔

80ء کی دہائی میں حبیب ولی محمد نے نثار بزمی کی موسیقی میں غزلیں ریکارڈ کرائیں جو آڈیو کیسٹوں کی شکل میں سامنے آئیں۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستانی فلمی صنعت کی طرف سے پلے بیک گائیکی کیلئے پیشکش کی گئی۔ اگرچہ ان کا اس دور میں بہت احترام کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے گائیکی کو مکمل طور پر پیشہ نہیں بنایا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ملی نغمات بھی گائے اور ان نغمات کو بھی بہت سراہا گیا۔1973ء میں فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ کیلئے ان کے گائے ہوئے گیت ’’آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘نے لازوال شہرت حاصل کی۔

جیسا کہ اُوپربیان کیا جا چکا ہے کہ ان کے تین فلمی گیتوں نے لافانی شہرت حاصل کی، ان میں دو گیت فلم’’بازی‘‘ کے تھے اور ایک فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ کا تھا۔1970ء میں حبیب ولی محمد کو سپیشل نگار ایوارڈ دیا گیا۔ وہ امریکہ میں بھی غزل کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عمر پائی۔ وہ 4ستمبر2014ء کو 93برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے ۔ انہوں نے موسیقی کے میدان میں اگرچہ اتنا کام نہیں کیا لیکن جتنا کیا وہ لاجواب تھا۔ اہلِ موسیقی انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں ، طویل عرصہ سے روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے وابستہ ہیں،

 2 کتابوں کے مصنف بھی ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔