تھیٹر بحران : ذمہ دار کون ؟ تفریحی سرگرمیاں بحال کرنے کے حکومتی اعلان کے باوجود تھیٹرز آباد نہ ہوسکے

تحریر : مرزا افتخار بیگ


حکومت کی جانب سے لوگوں کی تفریح کیلئے تھیٹرز کھولنے کے اعلانات کے باوجود بہت سے تھیٹر تاحال بند ہیں۔ عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر کی معیشت تباہ ہوئی وہیںپاکستانی تھیٹر کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا۔ تھیٹر بند ہونے سے سٹیج ڈراموں سے وابستہ فنکار بھی معاشی مسائل کا شکار رہے۔ کورونا کی صورتحال میںبہتری کے بعد10اگست 2020 ء کو حکومت نے ایس او پیز کے تحت تھیٹر ہالز کھولنے کی اجازت دی مگر پروڈیوسرز اب تک تھیٹرز کو آباد کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ تھیٹر بزنس میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جدید تھیٹر ز کی تعمیر نو بھی تعطل کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ کئی چلتے ہوئے تھیٹر بند ہوگئے ہیں۔

کراچی میں تھیٹرز کے بحال نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟، اس کا ذمہ دار کون ہے؟،اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔ان حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی سب سے بڑی وجہ تھیٹر کے لوگوں کی نا اتفاقی نظر آتی ہے۔سرکاری سرپرستی میں تھیٹر ڈراموںکو فروغ کے مواقع جب ہی مل سکتے ہیں جب تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اپنی یک جہتی کا ثبوت دیں۔اس کی بقاء اور سا لمیت کیلئے اپنی ضد، انا اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگالیکن اپنے مفادات کی قربانی دینے کیلئے کوئی تیار نظر نہیں آتا۔

دوسرے تھیٹر ڈراموں کو صرف رقص تک محدود کرنا کسی المیہ سے کم نہیں،جس کی وجہ سے فیملی کے ساتھ اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کارحجان ختم ہو رہا ہے۔عوام کے ذوق کے مطابق معیاری اسٹیج ڈرامے وقت کی ضرورت ہیں۔ بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود ناقص اسکرپٹ اور ڈانس کلچر پر مبنی ڈرامے پیش کرنے والے بھی موجودہ تھیٹر بحران کے ذمہ دار ہیں۔ ان حالات میں بھی اگر کچھ لوگ رسک لے کر معیاری اسٹیج ڈرامے پیش کر رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ڈرامہ پروڈیوسرز کی ہر طرح سے مدد کی جائے، ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے ۔اگرتھیٹر سے وابستہ سینئر لوگ ان نئے لوگوں کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اپنائیں گے،معیاری ڈرامہ اتار کر میوزیکل ورائٹی شوز کو ترجیح دی جائے گی تو تھیٹر ڈرامے کی گاڑی کیسے چلے گی؟

تھیٹر ڈراموں سے دنیا بھرمیں شہرت پانے والے فنکاروں امان اللہ،معین اختر،عمر شریف، ببو برال،مستانہ ودیگر کا دنیا سے کوچ کر جانا،قوی خان،سہیل احمد، مسعود اختر، عاصم بخاری جیسے عظیم فنکاروں کا تھیٹر سے دوری اختیار کر لینا بھی تھیٹر کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنی۔ انتقال کر جانے والے عظیم فنکاروں نے دنیابھر میں اپنی عمدہ پرفارمنس سے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی اپنی منفرد شناحت بنائی۔ 1996ء میں راقم جب بمبئی گیا تھا تو لوگ عمرشریف کے ڈرامے کے وڈیو کیسٹ کا تقاضہ کرتے تھے۔ اس لیجنڈ فنکار کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کیبل چینل سے روزانہ صرف عمرشریف کے ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔ بار بار’’ بکرا قسطوں پہ‘‘ چلایا جاتا تھا۔ ان ڈراموں کے فنکار شکیل صدیقی (تیلی) ،شہزاد رضا و دیگر کو بھی بے پناہ شہرت ملی،ان دونوں فنکاروں نے تھیٹر کودوبارہ آباد کرنے کے لئے کئی کوششیں کیں لیکن معاشی طور پر ان فنکاروں کو پریشان ہی دیکھا جارہا ہے۔

مذکورہ شعبے کے لوگوں میں گروپ بندی اور اختلافات نے مخلص لوگوں کی کوششوں کو بھی مٹی میں ملادیا ہے۔ تھیٹر ہالز کو کھلنے کے لئے آواز اٹھانے والے ذاتی تھیٹر ہال بھی نہ کھول سکے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ تھیٹر کی بندش سے پروڈیوسرزکو نقصان ہورہا ہے وہ حکومتی اعلان کے باوجود تھیٹر انڈسٹری کی رونقیں بحال کرنے میں دلچسپی لیتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ ایسے میں وہ سرکار سے مراعات اور امدادی پیکج کے مطالبات کیسے کرسکتے ہیں۔

تھیٹر کیلئے ڈرامہ لکھنے والوںکا بھی فقدان ہے، پرانے لوگ سٹیج پر گروپ بندیوں کی وجہ سے تھیٹر سے دور ہو چکے ہیں اور نئے لکھنے والے اس طرف آ نہیں رہے۔

اس حوالے سے ڈرامہ پروڈیوسر و تھیٹر آنرشہزاد عالم کا کہنا ہے کہ تھیٹر ڈراموں کے شائقین اب نہ ہونے کے برابرہیں ،ان کو فیملی کے ساتھ لانے کیلئے ہم نے انورمقصود جیسے نامور ڈرامہ رائٹرز تک رسائی کی۔ ڈرامہ کا بجٹ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ہمیں نقصان ہی نظر آتا ہے۔ ملتان اور کراچی میں شائقین ڈرامہ کم ڈانس زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں، ایسے میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ معروف ڈرامہ رائٹر انور مقصود پر امید ہیں کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں، تھیٹرز جلد آباد ہوںگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تھیٹر ڈراموں کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ اداکار عاصم بخاری نے کہا کہ عوامی تھیٹر ختم ہوکررہ گیا ہے۔ سرکاری سطح پر تھیٹر کے فنکاروں کے لئے سرپرستی ضروری ہوگئی ہے۔ بھارت جا کر ملک کانام روشن کرنے والے فنکار بھی معاشی مسائل سے دوچار ہوچکے ہیں۔ جس کیلئے ثقافتی اداروں کوبھی اپناکردارادا کرنا ہوگا۔ میں تھیٹر ڈراموں سے ایک عرصے سے دور ہوں، صرف اجوکا کے ڈرامے کر کے اپنے اندر کے فنکار کی پیاس بجھا لیتا ہوں۔ اداکار و ہدایتکار حنیف راجہ نے کہا ہے کہ مزاح نگاری موجودہ دور میں ٹینشن زدہ عوام کے لئے ایک ٹانک کا درجہ رکھتی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں مزاحیہ تھیٹر ڈراموں کا فقدان تھیٹر فنکاروں کے لئے لمحہ فکریہ بن کر رہ گیا ہے۔

کراچی اور لاہور کی طرح ملک کے دیگر شہروںمیں بھی تھیٹر کے کاروبار کی صورتحال اچھی نہیںہے۔ یہ شعبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ ماضی کے ڈراموں و فنکاروں کی طرح نئی نسل کو جو ش و جذبے ، لگن اور محنت سے معیاری اور جدید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی معیار کے دلچسپ و تفریح سے بھرپور ڈرامے اسٹیج کئے جاسکیں۔تنزلی، ترقی اور بحران سب وقتی ہوتا ہے ان تمام بحرانی صورتحال میں جو قدم ڈگمگاتے نہیں، کامیابی و کامرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔بے جا تنقید سے گریز کیا جائے ان ڈراموں کو مناسب تشہیری مہم کے ساتھ تھیٹر مالکان کی دلچسپی اور تعاون کی ضرورت ہے۔

مرزا افتخار بیگ کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر شوبز جرنلسٹ ہیںاور وہ آج کل

 روزنامہ ’’ دنیا ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔