ترمیمی بل 2021 : عوامی نمائندوں کے کم ہوتے اختیارات
کراچی میں نسلہ ٹاور کے انہدام سے پیدا ہونے والا انتظامی بھونچال ابھی جاری تھا کہ اس دوران حکومت سندھ نے مارچ میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل2021ء منظور کرلیا ۔سندھ اسمبلی سے اس بل کی منظوری پر اب سیاسی بھونچال بھی پیدا ہوگیا اوراس وقت ہر جانب سے شدید ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت ایم کیو ایم پاکستان،مہاجر قومی موومنٹ ،پاک سر زمین پارٹی اور سب سے بڑھ کر جماعت اسلامی نے ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بل کی منظوری پر وزیر اعلیٰ سندھ کو قانونی نوٹس بھجوادیاہے۔مصطفی کمال بھی عدالت پہنچ گئے ہیں اور ریاستی اداروں کو متوجہ کررہے ہیں۔
ترمیمی بل کے مختصر جائزے کے مطابق بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات میں مزیدکمی کردی گئی ہے۔میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حددد میں اب کوئی دیہی علاقہ نہیں ہوگا۔ اضلاع ختم کرکے ٹاؤن کا نظام متعارف ہوگا۔ کراچی سے ڈسٹرکٹ کونسل کا نظام ختم کردیا جائیگا۔ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ،عباسی شہیدہسپتال ، سوبھراج ہسپتال، جذام ہسپتال، سرفراز رفیقی شہید ہسپتال،پیدائش اور اموات کے رجسٹریشن کا محکمہ اور انفیکشن ڈیزیز کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ہے۔فوڈ اینڈ ڈرنک کے قوانین بنانا، ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرنا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والا طبی عملہ سندھ حکومت کے ماتحت ہوگا البتہ عوامی بیت الخلاء بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام رہیں گے۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے سندھ اسمبلی نے پہلے سے لاغر اور لاچار بلدیاتی نظام میں ایک اور ’’تیر‘‘ چلاکر اسے عوامی بیت الخلاء کا نظام چلانے تک محدود کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔اس بل کے مثبت سے زیادہ منفی اثرات ہونگے تاہم صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ اور سعید غنی نے کہا ہے کہ بل میں اپوزیشن جماعتوں کی تحریری تجاویز شامل ہیں۔ اگر پھر بھی اپوزیشن بلدیاتی الیکشن نئے قانون کے تحت نہیں چاہتی تو پھر الیکشن پرانے قانون پر ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی صحیفہ نہیں کہ بعد میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
ادھر سندھ اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 ء کی منظوری کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں حلیم عادل شیخ،کنور نوید جمیل ،عبدالرشید اور حسنین مرزا نے کہا کہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے میئر کا انتخاب ووٹوں کی خرید فروخت کا سبب بنے گا۔سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ایک بار پھر جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا ہے۔پارلیمانی لیڈر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کنور نوید جمیل نے کہا کہ یہ بل بلدیاتی نظام پر ڈاکہ ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا عندیہ دیا ہے۔مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کہاہے کہ نئے بلدیاتی ایکٹ کی منظوری بتارہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی نیت صاف نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا مئیر لاکر رہی سہی کسر بھی پورا کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے باغ جناح میں 19 دسمبر کو جلسے کا اعلان کردیا ہے جسے مہاجر کنونشن کا نام دیا گیا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے تو یہ تک کہ دیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر اور انگریز نے مقبوضہ برصغیر میں اتنے مظالم نہیں کیے جتنے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ اورکراچی پر کر رہی ہے۔ میئر کا انتخاب پہلے شو آف ہینڈ جبکہ اب خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔ جس ملک میں سینیٹر بکتے ہیں وہاں کونسلر بھی بکیں گے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست پیپلز پارٹی کو روکے ورنہ جن لوگوں کو دیوار سے آج لگایا جا رہا ہے وہ کل ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ بن چکی ہے۔
دوسری جانب بلدیاتی ماہرین اور شہری حلقوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ ترمیمی بل پاس کرکے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی ایک بھیانک مثال قائم کی ہے۔ان حلقوں کے مطابق موجودہ بلدیاتی نظام پہلے ہی بہت سے اختیارات سے خالی تھا۔ اب الیکشن سے قبل آنسو پونچھنے کیلئے پیپلز پارٹی نے اپنے ایڈمنسٹریٹر بیرسٹر مرتضی وہاب کو تعینات کیا ہے جو کسی نہ کسی طرح کراچی کی مرہم پٹی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ماہرین کے مطابق لگتا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام عوامی بیت الخلا ہی چلا سکے گا کیونکہ کچرا اٹھانے کا کام پہلے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کو دے دیا گیا ہے جس کا کام کچرا اٹھانے کے بجائے شہر میں کچرے کے پہاڑ بنانا رہ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ماں اور بچے کی صحت سے متعلق ایک ماڈل پروگرام کا افتتاح کردیا ہے،اس پروگرام کا آغاز تھرپارکر کے دو اضلاع سے کیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی اور بڑھتی مہنگائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے غربت مٹائو پروگرام سے30 ملین خاندانوں کو فائدہ مل رہاہے۔بلاسود قرضے دیئے جارہے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پروگرام کے تحت تھرپارکر میں حاملہ ہونے والی ہر خاتون کو مفت چیک اپ کے ساتھ 1000 روپے وظیفہ بھی دیا جائیگا۔ز چگی مفت ہوگی، بچے کی دو سال تک نشونما کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ حاملہ خاتون کا ریکارڈ کمپیوٹرائز ہو گا۔
دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی نظام میں کوئی بہتری دکھائی ہو یا نہ دکھائی ہو ، صحت کے میدان میں اس کی نمایاں کارکردگی سب کے سامنے ہے۔صحت کے اسٹیٹ آف دی آرٹ اداروں ایس آئی یو ٹی،انڈس ہسپتال،دل کے ہسپتالوں کی سرپرستی اس کی اولین ترجیح ہے۔