مہنگائی : اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی بنانے میں ناکام
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کی عدم کارکردگی اور خصوصاً ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری کی بناء پر اختیار کئے جانے والے بیانیہ کے باوجود اپوزیشن حکومت کے خلاف کسی بڑے اقدام پر کیونکر تیار نہیں؟ اس نکتہ پر ہر سطح پر غورو غوض کا سلسلہ جاری ہے اور عام تاثر یہ بن رہا ہے کہ جس حکومت کے دور میں عوام کیلئے ریلیف کی بجائے تکلیف ہی تکلیف، بے روزگاری، غربت اور مہنگائی نے ان کا جینا اجیرن بنا رکھا ہے تو اس کیفیت میں اپوزیشن حکومت کے خلاف کسی قسم کے احتجاج اور احتجاجی تحریک سے گریزاں کیوں ہے ؟ کیا عوام کے اندر پیداشدہ ردعمل کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے ایام میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم یا دیگر اپوزیشن جماعتیں مسائل زدہ مہنگائی، زدہ عوام کی آواز بن جائیں گی؟ اس حوالے سے چھ دسمبر کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کوباہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے حوالے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ مذکورہ اجلاس فیصلہ سازی اور کسی بڑے فیصلے کے حوالے سے اہم ہوگا۔
امید ایک ایسا رشتہ ہے جو حال کو مستقبل سے جوڑتا ہے اور وقت کو حالات سے بے خبر کر دیتا ہے مگر آج کا بڑا سوال یہی ہے کہ مسائل زدہ عوام ناامید ہو رہے ہیں اور نظام تب مرتے ہیں جب عوام کا معاشی، سیاسی، عدالتی و انتظامی انصاف سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔ بظاہر سب ٹھیک ہوتا ہے مگر اندر ہی اندر سے عوام پگھلتے نظر آتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں سیاسی قوتیں ان میں حوصلہ پیدا کرتی ہیں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرکے ان میں امید اور آس پیدا کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں آج حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیدا شدہ محاذ آرائی کی کشمکش اور تنائو خود عوام کے اندر اور مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ان کی آواز بننے کو تیار نہیں اور انہیں ان کے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ اپوزیشن میں احتجاجی طاقت مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے اور انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ موجودہ حکومت کے قیام کے ایک سال بعد ہی کرکے دکھا دیا تھا اور اسلام آباد پہنچ گئے تھے، مگر ان کے اتحادی خصوصاً مسلم لیگ (ن) گو مگو سے دوچار ہے اس لئے کہ مسلم لیگ (ن) احتجاجی نہیں انتخابی جماعت ہے۔
پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے نکل جانے کے بعد مولانا فضل الرحمن کی اصل کمزوری مسلم لیگ (ن) بن گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا پی ڈی ایم سے جڑے رہنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اس اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں اور ویسے بھی احتجاجی سیاست کارگر انہی کی ہوتی ہے جن کے پاس گنوانے کیلئے کچھ خاص نہیں ہوتا جبکہ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) بھی احتجاجی سیاست کا حصہ بن کر وہ کچھ گنوانا نہیں چاہتی جو ان کے پاس ہے۔ البتہ آنے والے حالات میں لانگ مارچ کی بات ہو رہی ہے اور مولانا فضل الرحمن اس پر مصر ہیں مگر ن لیگ کو یہ فیصلہ بھی بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ اس لئے کہ ن لیگ کے اندر اس حوالے سے بھی دو آراء ہیں۔ لندن سے حکومت پر دبائو بڑھانے اور اسے گھر بھجوانے کیلئے دبائو ہے اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جڑے رہنے اور ان کا ساتھ دینے کی بات بھی جاری ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی موجودہ قیادت شہبازشریف کا ہدف حکومت گرانے اور ہٹانے سے زیادہ شفاف اور آزادانہ انتخابات ہیں مگر یہ انہیں کس طرح مل پائیں گے خود ان کو بھی معلوم نہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا آئندہ فیصلہ اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں نتیجہ خیز ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اگر لانگ مارچ کے آپشن کی بات بھی ہو گی تو اس کیلئے تاریخ کا فیصلہ نہیں ہو پائے گا ۔
ان ہائوس تبدیلی کی بات کو پذیرائی مل سکتی ہے مگر اس کیلئے بنیادی اور اصل کردار مسلم لیگ (ن) کا ہوگا جو کسی بھی طرح اس پر تیار نظر نہیں آتی۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے حالات میں اپوزیشن کی جانب سے کسی بڑے اپ سیٹ کیلئے فیصلہ سازی کی کمی ہے جو اسے آگے بڑھنے نہیں دے رہی۔
مشیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی منی بجٹ آنے کے اعلان سے ہی مسائل زدہ عوام کے اوسان خطا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بظاہر تو حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ منی بجٹ کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا لیکن آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کے مطابق جب بجلی و دیگر یوٹیلیٹی بلز اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور 350ارب کی جی ڈی پی میں چھوٹ ختم ہو گی تو مہنگائی کے طوفان سے عوام کیسے بچ پائیں گے۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف آئی ایم ایف کی مذکورہ شرائط پر قوم کو تو یہ بتاتے نظر آ رہے ہیں کہ یکم دسمبر سے قیامت خیز مہنگائی آنے والی ہے ۔ ڈالر کی پرواز جلتی پر تیل کا کام دکھا رہی ہے۔ قرض، مہنگائی خسارے ڈالر ہر چیز کا ریکارڈ توڑ چکی ہے مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر حکومت خود کو آئی ایم ایف کی شرائط کی پابند بنا کر اپنے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی ہے تو پھر اپوزیشن کہاں کھڑی ہے ؟کیونکہ یہ منی بجٹ ایوان میں آتا ہے تو کیا اپوزیشن منی بجٹ کا راستہ روک سکے گی؟منتخب ایوان کے کچھ اراکین کو باور کرایا جا سکے گا کہ اس کے اثرات عام آدمی پر کیا ہوں گے؟ اور پھر یہ ملک میں کیسی جمہوریت ہے جو عوام کیلئے ریلیف کی بجائے اذیت کا باعث بن رہی ہے؟ کوئی بھی مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھنے اور مہنگائی زدہ عوام کی آواز بننے کو تیار نہیں۔