آڈیو ویڈیو لیکس: اہم سیاسی ہتھیار؟
پاکستانی سیاست آج کل آڈیوز اور وڈیوز لیکس کی زد میں ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی آڈیو اور وڈیو سامنے آرہی ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ لیکس تمام اطراف سے سامنے آرہی ہیں۔ ہر کوئی انہیں حسب منشا اور حسب ضرورت اپنے حق میں اور اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہا ہے تاہم پاکستانی سیاست میں ایسی لیکس ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
مشہور زمانہ شہباز شریف اور جسٹس عبدالقیوم کے درمیان گفتگو کی ٹیپ ہو یا پھر اس وقت کے احتساب کمیشن کے چیئرمین سیف الررحمان کی جس میں وہ بینظیر بھٹو کو سزا دلوانے کے حوالے سے احکامات دیتے سنائی دیتے ہیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر علوی صاحب کی دھرنے کے دنوں کی ٹیپ جس میں وہ ایم کیو ایم کی مدد کی بات کر رہے ہیں یا پھر جیلوں سے مختلف اوقات میں یہ لیکس سامنے آتی رہی ہیں۔ ظاہر ہے ان لیکس کو متعلقہ پارٹیز اپنے اپنے حق میں استعمال کرتی رہی ہیں۔ کچھ اس میں کامیاب ہوئے لیکن زیادہ تر کو ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔
اب لیکس کا دور شروع ہوتا ہے مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کی ایک مبینہ وڈیو سے جس میں ان کو انتہائی قابل اعتراض حالات میں دکھایا گیا ہے۔ زبیر صاحب نے اس عمل کو مکروہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدومد سے تردید کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک آڈیو لیک سامنے آئی ہے جس میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ،جسٹس ثاقب نثار2018ء کے انتخابات کے موقع پر کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ انہیں اداروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں بند رکھیں تاکہ عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا جا سکے۔پھر ہم کو جسٹس رانا شمیم کا ایک بیان حلفی پڑھنے کو ملتا ہے جس میں وہ جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ان کی موجودگی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو مریم نواز اور نواز شریف کو ضمانت نہ دینے کی ہدایت کی ۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مریم نواز شریف کی ایک آڈیو سامنے آتی ہے جس میں وہ چند چینلز کو اشتہارات نہ دینے کے حوالے سے حکم دیتی سنائی دیتی ہیں اور حیران کن طور پر وہ اس آڈیو کو بذات خود درست قرار دیتی ہیں۔لیکن ان کا کہنا ہے یہ ان کی پارٹی کے اشتہارات تھے نہ کہ نون لیگ کی حکومت کے دور کے۔
اس کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ن لیگ مریم نواز کی سربراہی میں جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو کو اپنے بیانیے کے حق میں استعمال کر رہی ہے کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ساتھ مل عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھانے کے لیے غیر قانونی اقدامات اٹھائے۔
دوسری جانب حکومت والے مریم نواز کے اشتہارات کے حوالے سے آڈیو ٹیپ کی دن رات تشہیر کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ صبح شام جاری ہے۔ تازہ ترین ویڈیولاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے حوالے سے سامنے آئی ہے جس میں مبینہ طور پر ن لیگ پیسوں کے عوض لوگوں سے خفیہ بیان حلفی لے رہی ہے۔ ان تمام آڈیوز اور وڈیوز کے آنے کے بعد اس موضوع پر دو زاویوں سے بحث ہو رہی ہے۔ اوّل کیا ان شواہد کی کوئی قانونی حیثیت ہے جس کے بل بوتے پر متعلقہ سیاسی جماعت ان کو اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے انکو کورٹ آف لا میں پیش کرے گی۔ دوسرا زاویہ کہ کیا ان لیکس سے متعلقہ پارٹیز کوئی سیاسی فائدہ اٹھا سکیں گی؟
انہی سوالات کو لیکر ہم نے اسلام آباد میں موجود حکومتی اور اپوزیشن حلقوں کے باخبر ذرائع کے پاس بھی گئے۔ ن لیگ کا مؤقف اس معاملے پر بڑا سادہ سا ہے۔ ہمارے لیڈران کے خلاف دباو ٔکے ذریعے فیصلے کروائے گئے ہیں۔ اگر ہمارے کیسز میرٹ پر سنے جاتے تو سزاؤں کی بجائے ان کو بریت ملتی۔ مریم نواز اور نواز شریف کو جیل میں رکھنے کا واحد مقصد عمران خان کو وزیراعظم بنانا تھا۔ اس لیے اب ان شواہد کے بعد ان تمام کیسز اور ان کے ذریعے دلوائی گئی سزاؤں کو ختم کیا جائے۔ ایک ن لیگی رہنما کے مطابق ان لیکس کے بعد ہمارا مقدمہ بہت واضح ہو گیا ہے اور ہمیں قوی امید ہے کہ عدلیہ ہمارے رہنماوں کے خلاف کیسز کے حوالے سے ضرور نظر ثانی کرے گی۔ ان شواہد کو عدالتوں میں کس طرح ثابت کیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں ن لیگ کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ کیا حالات و واقعات یہ سب کچھ ظاہر نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ2018ء کے انتخابات کے پہلے سے زیادتی ہو رہی ہے،ہمیں اب اس کا ازالہ ہونے کی پوری قوی امید ہے۔
اس صورتحا ل پر حکومتی ارکان کا ماننا ہے کہ مریم کی اپنی آڈیوز آنے کے بعد سے ن لیگ کا سارے کا سارا کیس ہی خراب ہو گیا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ مریم نے اپنی ان لیکس کو مان بھی لیا ہے کہ کس طرح انہوں نے میڈیا کو زور زبردستی سے اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنائے،چونکہ ن لیگ کا عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلے کروانے کے حوالے سے ایک ماضی بھی رہا ہے اس لیے حکومتی ارکان سمجھتے ہیں ان آڈیوز اور وڈیوز کی وجہ سے ن لیگ کے خلاف جاری کیسز پر کوئی مثبت یامنفی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کو اپنے کیسز عدالتوں میں ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر لڑنے پڑیں گے نہ کہ ان جعلی قسم کی لیکس کی بنیاد پر۔
سب سے دلچسپ رد عمل پیپلزپارٹی والوں کی طرف سے سننے کو ملا۔ وہ کہتے ہیں اچھا ہے حکومت اور ن لیگ والے ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ماضی میں ن لیگ نے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر ہمارے خلاف جو فیصلے کروائے تھے، وہ سب پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ایک بار پھر تازہ ہو رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی والوں کو دونوں صورتوں میں سیاسی طور پر فائدہ ہی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس سارے قصے کو لے کر جب اسلام آباد میں موجود آزادانہ رائے رکھنے والے سیاسی مبصرین سے بات ہوئی تو زیادہ تر کا خیال یہی تھا کہ ملکی سیاست اسی طرح نرم گرم چلتی رہے گی۔ اب اصل معرکہ آئندہ عام انتخابات کے موقع پر ہی دیکھنے کو ملے گا اور وہ معرکہ کون جیتے گا فی الوقت اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔