اسوئہ حسنہ کی روشنی میں فلاح معاشرہ میں خاندانی زندگی کا کردار ،گھریلو زندگی میں صلح جو ہونے کا براہ راست اثر معاشرے پر پڑتا ہے

تحریر : ڈاکٹر عقیل احمد


نبی اکرم ﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد ایک معتدل، انسان دوست اور مستحکم معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ معاشرہ کی ترقی و خوش حالی کا انحصار افراد کے رویوں پر ہے۔ افراد کے رویے حکومت سازی، اداروں کے استحکام بقائے باہمی اور دیگر معاملات کی سمت، ضابطے اور منزل کا تعین کرتے ہیں۔ افراد کے فکری اور اخلاقی رویوں کی تشکیل کا بنیادی محرک عائلی زندگی ہے۔ عائلی زندگی کو اسلام میں بنیادی تربیتی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے۔ نبی اکرمﷺ نے عائلی زندگی کے جو مقاصد اور حقوق و فرائض متعین فرمائے ان کی اساس اور جامع اثر فلاح معاشرہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

حضور اکرمﷺ نے انفرادی اور اجتماعی صورتوں میں جو احکام دیئے ہیں ان کی غایت یہی ہے کہ نظام ربّی کا کلی طور پر نفاذ ہو۔ معاشرہ کا صحیح سمت پر گامزن ہونا افراد کی ذہن سازی پر منحصر ہے۔ نبی اکرمﷺ نے عائلی زندگی کو اس کے مقاصد کے پیش نظر اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس سے نسل نو کی فکری، اخلاقی اور سماجی تربیت سہل طریقے سے ممکن ہو سکے تاکہ آگے یہی نسل ریاست کے خدوخال اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ یہاں ان چند بنیادی نکات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے مطابق گھر میں بچوں کی تربیت کرنا ضروری ہے اور یہی اسلامی ریاست کے بنیادی نکات ہیں۔

نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں ان میں سب سے بہتر عطیہ تعلیم و تربیت ہے‘‘ (مشکوۃ، بخاری: جلد 1: ص 422)۔ اب تعلیم و تربیت میں سب سے پہلے کس بات کا حکم دیا جائے اور کس انداز سے تربیت کی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو سختی کرو‘‘(صحیح ابودائود : 495)۔سات برس کی عمر میں بچے کے شعور اور حواس میں ادراکات کا ملکہ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے، کچھ غور کرتا ہے۔ یعنی اس کا سن تمیز شروع ہوتا ہے تو پہلا حکم جو اس کو دیا جائے وہ نماز کا ہے۔ یعنی ان کو نماز سکھائی جائے، آگے نماز بذات خود فرد کی تربیت کر دے گی۔ 

یہ بھی قابل غور بات ہے کہ پہلا حکم نماز کا ہی کیوں دیا جا رہا ہے ؟ اس لیے کہ اب بچہ بڑا ہو رہا ہے اس نے سکول جانا ہے، اس کا دوسرے لوگوں سے بڑوں سے ملنا ملانا ہو گا تو نماز کی صورت میں اس کی شخصیت میں ادب و احترام، اطاعت، ضبط نفس، پابندی وقت اور پاکیزگی جیسی صفات پیدا ہوں گی جو تعمیر شخصیت کی بنیاد ہیں۔

سات سے دس برس کی عمر کا زمانہ تربیت کا ہے اس میں سختی نہ کی جائے، دس برس کی عمر میں سختی کی جائے۔ پورے تین برس اس کو نماز ہی کی مشق کرانی ہے تاکہ اس کے مزاج میں نماز رچ بس جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا زندگی میں اقامت صلوۃ کے رنگ نظر نہیں آئیں گے۔ تین سال صرف ایک حکم کی تعمیل اور اس حوالے سے تربیت کرنے کاحکم قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے۔ ’’اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دو اور پھر ثابت قدم رہو‘‘۔(طہ: 132)

10 سال کے بعد مارنا مقصد نہیں بلکہ سختی سے اس حکم پر قائم رکھنا ہے۔ اس سختی کا مقصد فی نفسہ بچے کی ذات کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ایک نماز کی ذات سے جن خیرات و حسنات کا ظہور معاشرہ میں ہوتا ہے یہ ایک طرح سے اس کے انقطاع کی ممانعت ہے۔ اس سلسلہ کے رک جانے پر سختی کی جا رہی ہے کیونکہ معاشرہ کا استحکام، فلاح اور بقا فرد کی شخصیت و کردار ہی پر منحصر ہے۔ گو جس بچے کی پہل حکم نماز کا دینا لازمی قرار دیا گیا ہے اسی طرح اہل اقتدار کو حکم ہے کہ جب وہ اقتدار کی مسند پر بیٹھیں تو پہلا کام کیا کریں؟ ارشاد ہوتا ہے ’’وہ لوگ جن کو ہم زمین پر اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نظام صلوٰۃ قائم کرتے ہیں‘‘(الحج:41)۔اب جب اہل اقتدار نظام صلوٰۃ کی صدا بلند کریں گے توان کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ ہر مسلمان کی صلوٰۃ کی تربیت تین برس ہوتی رہی ہے۔ اب نظام صلوٰۃ کو اجتماعی طور پر نافذ کیا جا رہا ہے تو انفرادی طور پر جو پہلے ماحول بنا ہوا ہے وہ سب کے یکجا ہونے سے اجتماعیت کی صورت اختیار کرے گا اور اس کے بعد معاشرہ جن خیر و برکات سے مستفید ہو گا وہ نہ صرف اس معاشرہ بلکہ انسانیت کیلئے مشعل راہ ہوں گی۔

عائلی زندگی اور معاشرہ کا دوسرا ارتباطی نکتہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہے۔ عائلی زندگی میں صلح مابین زوجین کے لیے قرآن کا حکم ہے کہ ’’اور صلح ہی بہتر ہے‘‘ (النساء: 128)۔ انسانی زندگی کا جھگڑوں اور نزاع سے  خالی ہونا ممکن نہیں ، اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی ہر صورت کا حل صلح ہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس طرح کے معاملات میں دو بنیادی اصول دیئے ہیں۔ ایک لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد بننے والے تمام محرکات کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسرا نزاعی معاملات کو جلد از جلد ختم کیا جائے تاکہ اثرات بد سے دوسرے محفوظ رہیں۔

عائلی زندگی میں مزاجوں کا صلح کی طرف مائل ہونے یا صلح جو ہونے کا براہ راست اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ بڑوں کی ناچاقی اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے عموماً اولاد کی تربیت صحیح سمت پر نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں عائلی زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے ہر معاملہ میں ’’والصلح خیر‘‘ کا اصول اعلیٰ مقاصد کے حصول کی کلید ہے۔ اس طرح سماج میں جب افراد، گروہ، خاندانوں یا قبائل میں لڑائی ہو گی تو ریاست کمزور ہو گی۔ ان قبائلی و سماجی جھگڑوں کے خاتمہ کے لیے قرآن نے حکم دیا ہے ’’فاصلحوا‘‘ پس صلح کراؤ۔ قرآن کریم کی سورۃ الحجرات ہی میں یہ حکم تین بار دیا گیا ہے۔

تیسرا نکتہ خاندانی زندگی اور معاشرہ کے درمیان عدل ہے۔ بیوی بچوں کے مابین عدل کرنانہ صرف حکم ہے بلکہ ایک سماجی ضرورت بھی ہے۔ ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں عدل قائم رکھنے کے لئے فرمایا ’’پس اگر تمہیں خوف ہو کہ تم عدل نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی (بیوی) کافی ہے‘‘ (النساء:3)۔بیویوں کے مابین عدل نہ کرنے سے عدم توجہی ، حق تلفی ،مساوات کا فقدان، ضروریات و خواہشات کی عدم دستیابی جیسے منفی رویے پروان چڑھیں گے، جن سے معاشرہ ہی متاثر ہو گا۔خود نبی کریمﷺ اگر اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ کچھ زائد وقت گزارنا چاہتے تھے تو دوسری ازواج سے اجازت لیتے تھے۔ایسے ہی آپﷺ ان کے حقوق و ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے۔اسی طرح اگر بچوں کے مابین عدل نہیں ہو گا تو ان میں احساس کمتری، اعتماد کا فقدان ،سوچ میں منفیت اور طبیعت میں حسد و عناد جیسی روش غالب ہو گی۔

ریاست میں عدل اجتماعی کے نفاذ کے لیے حکم دیا گیا ہے :’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے حق کے ساتھ گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ‘‘ (المائدہ: 8)۔ حق کا ساتھ دینے کیلئے اور نظام عدل کے نفاذ کے لیے کھڑے ہونا اہل ایمان کی اجتماعی زندگی کا طریقہ ہے۔ اہل ایمان سے مراد باشعور اور بالغ افراد ہیں۔ وہ بندہ جس کے گھر میں عادلانہ طریقے سے تربیت ہوئی ہو گی وہ عدل سے بخوبی آشنا ہو گا۔گھر میں عدل جیسی نعمت سے وہ مستفید ہوا ہوگا اب وہ ضرور کوشش کرے گا کہ اجتماعی طور پر عدل کا نفاذ ہو تاکہ پورا معاشرہ اس کے اثرات خیر سے کماحقہ مستفید ہو۔

پانچواں نکتہ جو خاندانی ادارہ اور ریاست کی اساس ہے وہ حفاظت ہے۔ انسانی جان کی حرمت کے پیش نظر قتل اولاد کی نہ صرف ممانعت ہے بلکہ اس کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:’’ اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی،بے شک ان کا قتل بہت بڑا گنا ہ ہے‘‘ (سورۃ الاسرا: 31)۔ اسی طرح معاشرہ میں ناحق قتل کے بارے میں فرمایا: ’’جس نے کسی کو (ناحق) قتل کیا گویا کہ اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔‘‘ (المائدہ: 32) گھر میں قتل اولاد کی ممانعت کر کے حفاظت جان کی اہمیت کو واضح کیا۔معاشرہ میں قتل انسان کو پوری انسانیت کا قتل کہہ کر قتل کا قصاص لینے کو زندگی فرما کر معاشرے میں دہشت و تخریب، قتل و غارت وغیرہ کا سدباب کیا جائے۔

 عائلی زندگی کی بنیادیں رسول اکرمﷺ نے متعین فرمائی ہیں ان کے ثمرات سے نہ صرف خاندان مستفید ہوتا بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرے تک پہنچتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے ایک خوبصورت اور اعلیٰ معاشرے کی تشکیل کے لیے جن جہات وعناصر کو اساس بنایا ہے ان میں عائلی زندگی کا ایک اہم کردار ہے۔ فرد اور معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لیے عائلی زندگی کلید اور نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ معاشرہ کی تشکیل اور استحکام و ترقی کے لیے اسوہ حسنہ کی روشنی میں جو اصول و ضوابط متعین ہیں ان میں خاندانی ادارہ کی مسلمہ اہمیت کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاندانی ادارہ اسلامی ریاست کا ایک اہم تربیتی مرکز ہے جس کے اثرات معاشرے پر اثر انداز ہو کر معاشرہ کی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ ایک فرد کی سماجی زندگی کا بنیادی مقصد اپنی عائلی زندگی کو ہی سنوارنا ہوتا ہے جس کا براہ راست اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔

(ڈاکٹر عقیل احمدمعروف مذہبی سکالر ہیں اور لاہور کی نجی یونیورسٹی کے شعبہ علومیہ سے وابستہ ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔