تلاش
افریقہ کے دور دراز گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ وہ ایک خوش مزاج، خوشحال اور قناعت پسند انسان تھا اور پر سکون زندگی گزار رہا تھا۔
ایک بار کسی اجنبی مسافر کا اس کے کھیتوں سے گزر ہوا۔ باتوں باتوں میں مسافر نے غریب کسان کو ہیرے کی اہمیت بتائی اور خوب تعریف کی۔ مسافر نے کہا کہ اگر تمہارے پاس تمہارے انگوٹھے کے برابر کا ہیرا ہو تو تم ایک پورا شہر خرید سکتے ہو اور اگر تمہاری مٹھی کے برابر ہیرا ہو تو تم پورا ملک حاصل کر سکتے ہو۔
اس اجنبی کے جانے کے بعد کسان پوری رات سو نہیں سکا۔ اس کو اپنی غربت پر غصہ آنے لگا۔ جو کچھ اُس کے پاس تھا اب وہ اُس سے ناخوش تھا اور اگلے کئی دنوں تک وہ بے حد بے چین رہا۔ ہر وقت وہ یہ ہی سوچتا رہتا کہ وہ کتنا امیر ہو جائے گا۔ اگر دو چار ہیرے اس کے ہاتھ لگ جائیں تو، وہ زندگی کی سب آسائشوں سے لطف اندوز ہو سکے گا۔
بالآخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ قیمتی ہیروں کی تلاش میں جائے گا اور اپنی زندگی کو پرسکون و پر آسائش بنائے گا۔ یہ ہی سوچ کر اس نے اپنا کھیت ایک آدمی کے ہاتھ بیچ دیا اور بیوی بچوں کو اپنے پڑوسی کے گھر چھوڑ کر خود ہیروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ غریب کسان پورا افریقہ گھوما لیکن اسے ایک بھی ہیرا نہیں ملا، پورا ملک تلاش کیا لیکن ہیرے کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملا۔ وہ کسان بہت دلبرداشتہ ہوا، اسے اتنا شدید جذباتی اور مالی دھچکا لگا کہ اُس نے دریا میں کود کر اپنی جان دے دی اور پھر کبھی واپس نہیں پلٹا۔
دوسری جانب جس شخص نے اس کسان کا کھیت خریدا تھا، وہ اپنے اُونٹوں کو کھیتوں میں سے گزرنے والی نہر سے پانی پلا رہا تھا کہ اچانک اس نے ندی کے کنارے ریت میں کسی چمکتی ہوئی چیز کو دیکھا۔ آگے بڑھ کر جب اس نے دیکھا تو ایک خراب ، گندہ سا لیکن بہت مختلف سا پتھر تھا۔ جب اس نے وہ پتھر نہر کے پانی میں دھویا تو اس میں سے قوس قزاح کے رنگ ہلکے ہلکے نظر آنے لگے۔ اس شخص کو وہ پتھر کافی مختلف اور دلچسپ لگا۔ وہ اس پتھر کو گھر لے گیا اور اپنی بیٹھک میں سجا دیا۔
کچھ عرصہ گزرا تھا کہ دوبارہ اسی اجنبی مسافر کا گزر اس علاقے سے ہوا۔اُسے اس شخص کے گھر رُکنے کا موقع ملا، جب اس اجنبی کی نظر اس چمکتے ہوئے پتھر پر پڑی تو وہ چیخ پڑا، یہ تو ہیرا ہے۔ کیا وہ کسان واپس آ گیا؟
جواب ملا:’’ نہیں! وہ کسان تو ابھی تک واپس نہیں آیا اور یہ ہیرا نہیں، یہ تو ایک پتھر ہے اور یہ مجھے یہیں باہر باغ سے ملا ہے‘‘۔ جب اجنبی شخص نے یہ سنا تو اس نے یہ اعتراف کیا کہ میں جانتا ہوں یہ ہیرا ہی ہے کیونکہ میں ہیرا دیکھ چکا ہوں۔
اس کے ساتھ ہی وہ دونوں باہر باغ میں گئے اور تلاش شروع کی۔ وہ دونوں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں اس پہلے والے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیرے موجود ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی ہیروں کی کان دریافت کی۔ اسی کھیت میں جہاں سے وہ کسی ہیروں کی تلاش میں گیا تھا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، اس کے کھیت سے ہیروں کی کان برآمد ہو چکی تھی۔
ہم ہمیشہ بہترین مواقع باہر تلاش کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ہیرے ہماری اپنی ذات میں موجود ہوتے ہیں جنہیں صرف تلاش کرکے سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ دُور کے ڈھول سُہانے ہوتے ہیں جب ہم کنارے کے دوسری جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہاں سے بھی کوئی ہماری جانب دیکھ کر ہیروں کو پانے کی خواہش میں مصروف ہوتا ہے۔
ہیرا اپنی خام حالت میں ہیرے کی طرح دکھائی نہیں دیتا۔ ہیرے کی اہمیت بڑھانے کیلئے اس کی تراش خراش اور اس کی پالش کی جاتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جائے۔ اسی طرح ہمیں بھی خود کو مکمل تراش خراش اور سنوارنے کی ضرورت ہوتی ہے تب کہیں جا کر ہمیں اپنی قوت اور اہمیت کا پتا چلتا ہے۔