جونیئرہاکی ورلڈکپ میں مایوس کن کارکردگی، ہاکی کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔
4 بارکا عالمی چیمپیئن 2014ء میں ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کرسکا تھاجونیئرہاکی ورلڈکپ کاتاج کس کے سر سجے گا اس کافیصلہ آج ارجنٹائن اور جرمنی کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کے بعدہوگا۔ دونوں ٹیمیں آج ٹائٹل ٹرافی کیلئے دوسری بارمدمقابل ہوں گی۔آج کون سی ٹیم اچھا کھیلتی ہے اورکس کومایوسی کاسامنا کرنا پڑتاہے، ہمیں اس سے کیا؟ ہمیں تو صرف اس بات کا دکھ ہے کہ پاکستان میں قومی کھیل ہاکی مسلسل تنزلی کاشکار ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حکام محض سیاست، اختیارات اور فنڈز کے حساب کتاب میں لگے رہتے ہیں اورکسی کو سبزہلالی پرچم کی سربلندی کااحساس نہیں ہے۔ ہمیں تو یہی افسوس ہے کہ ماضی میں ہاکی کے بے تاج بادشاہ پاکستان کی جونیئر ہاکی ورلڈکپ میں کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ،جس کاتسلسل درجہ بندی کے لیے کھیلے جانے والے میچز میں بھی جاری رہا اورپاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ سے شکست کھا کر ٹاپ ٹین میں بھی جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت میں کھیلے جانے والے ہاکی کے جونیئر عالمی کپ میں جنوبی افریقہ نے قومی ٹیم کو شوٹ آئوٹ پر ہرادیا۔پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان میچ مقررہ وقت میں 3،3گول سے برابر رہا تھااور فیصلہ شوٹ آئوٹ پر ہوا جس میں جنوبی افریقہ نے1-4 سے کامیابی حاصل کی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ دنیائے ہاکی پر طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والا پاکستان جونیئر ہاکی ورلڈکپ میں ٹاپ 10 ٹیموں میں بھی جگہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان جونیئر ہاکی ٹیم 2013 ء ورلڈکپ میں 9ویں پوزیشن پر رہی تھی۔2016 ء میں بھارت میں ہونے والے ایڈیشن میں ویزا نہ ملنے پر پاکستا ن شرکت نہیں کرسکا تھاجبکہ آسٹریلیا میں 2001 ء میں ہونیوالے ایڈیشن میں بھی پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اورماضی میں پاکستا ن دنیا کی کامیاب ترین قومی فیلڈ ہاکی ٹیموں میں سے ایک رہی ہے، جس نے ہاکی ورلڈ کپ (1971، 1978، 1982 ، 1994 ء ) میں ریکارڈ چار بار گولڈ میڈل جیت کر دنیائے ہاکی پر اپنی حکمرانی ثابت کی۔ پاکستان نے متناسب اور مطلق دونوں لحاظ سے ورلڈ کپ کی تاریخ میں مجموعی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔اس میں کھیلے گئے 84 میچوں میں 53فتوحات، 7 بار ڈرا،6 فائنل میں شرکت اور صرف 24 میں شکست ہوئی۔ پاکستان واحدٹیم ہے جس نے صرف 2014 ء کے ورلڈکپ میں شرکت نہیں کی جبکہ ایف آئی ایچ ورلڈ کپ کے باقی تمام ایڈیشنز کھیلے ہیں۔ گرین شرٹس ایشین گیمز میں8 طلائی تمغوں کے ساتھ کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔قومی ٹیم نے (1958ء، 1962 ء، 1970ء، 1974ء، 1978ء، 1982ء،1990ء اور 2010ء) میں سب سے زیادہ مرتبہ ایشین گیمز میں فتح سمیٹی۔ پاکستان واحد ایشیائی ٹیم ہے جس نے تین چیمپئن شپ کے ساتھ باوقار چیمپئنز ٹرافی (1978ء، 1980 ء اور 1994ء)جیتی ہے ۔ پاکستان نے پیشہ ورانہ طور پر کل 29 سرکاری انٹرنیشنل ٹائٹل جیتے ہیں۔
دنیا کے سب سے بڑے مقابلوں اولمپک گیمز کی بات کی جائے تو پاکستان کاماضی روم 1960ء، میکسیکو سٹی 1968 ء اور لاس اینجلس 1984 ء میں اولمپک کھیلوں کے فیلڈ ہاکی ٹورنامنٹس میں تین سونے کے تمغوں کے ساتھ شاندار ہے۔
جونیئرہاکی ورلڈکپ کی فائنلسٹ ٹیموں کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو پہلے سیمی فائنل میں ارجنٹائن کے گول میںNehuen Hernando کا دلیرانہ کھیل ہی اس میچ میں دونوں حریف ٹیموں کے درمیان اصل فرق تھا۔ ایک ایسے ٹورنامنٹ میں جس میں بہت سے گول ہو چکے تھے، فل ٹائم پر 0-0 سکور لائن اس کھیل کی سنسنی خیزی کا اشارہ تھی۔ میچ کے دوران، فرانس اور ارجنٹائن دونوںنے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا جس میں کوئی بھی فریق خطرہ مول لینے اور جیت کیلئے دبائو ڈالنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ارجنٹائن ابتدائی مراحل میں زیادہ خطرناک دکھائی دے رہا تھا۔ پہلے ہاف کے دوران، ارجنٹائن نے تین پینلٹی کارنرز جبکہ فرانس نے ایک پینلٹی کارنر حاصل کیا، لیکن کوئی بھی فریق فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ دونوں ٹیموں کے پاس اپنے کپتان فرانس کے ٹموتھی کلیمنٹ اور ارجنٹائن کے فیکونڈو زارٹے کی شکل میں زبردست گیم منیجر ہیں۔ سیمی فائنل کے دوران یہ دونوں کھلاڑی اپنے دفاع کو کنٹرول کر رہے تھے۔ میدان میں غلطیوں کے خوف نے دونوں ٹیموں کے مڈ فیلڈ اور فارورڈ کھلاڑیوں کی حرکت اور فیصلہ سازی کو روکے رکھا۔ شوٹ آئوٹ کے دوران، ارجنٹائن نے شاندار آغاز کیا اور فائنل کیلئے کوالیفائی کر لیا۔
دوسرے سیمی فائنل میں جاتے ہوئے، بھارت اور جرمنی دونوں بالترتیب بیلجیم اور اسپین کے ساتھ سخت مقابلوں سے گزرے تھے ۔ دونوں ٹیموں کی کارکردگی یکساں تھی تاہم یہ جرمنی ہی تھا جس نے ابتدائی کوارٹر میں فائدہ اٹھایا جب ایرک کلینلین نے پینلٹی کارنر سے گول کر کے اپنی ٹیم کو پہلے بریک پر آگے بڑھایا۔ جرمنی نے مجموعی طور پر 4گول کیے۔ بھارت صرف دو گول کر سکا۔ یوں جرمنی کی ٹیم آج فائنل معرکے میں پہنچ گئی۔
قومی کھیل کی تنزلی اورتباہی کے اسباب پر پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیںکہ جب سے ہم نے سکول سپورٹس سے توجہ ہٹائی اور ادارہ جاتی ٹیمیں ختم کی ہیں تو ہمیں قومی ٹیم کیلئے نرسری دستیاب نہیں۔ ہم اب صرف گزارے کا سکواڈ تشکیل دے کر گولڈمیڈل جیتنے کی امید کے بغیر صرف جوائے ٹرپ کیلئے ٹیم بناتے ہیں۔ٹورنامنٹ کے بعد اگر حقیقت پسندی سے کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صرف ’’کھیل ختم، پیسہ ہضم‘‘ ہی نکلتا ہے۔ ہمیں قومی کھیل میں اپنا عالمی وقار بحال کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے ساتھ کلب سطح پر توجہ دینا ہو گی، ماضی کی طرح ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں بنانا ہوں گی تا کہ کھلاڑی روزگار کی پریشانیوں سے نکل کر کھیل پرتوجہ دے سکیں اور سبزہلالی پرچم دوبارہ سر بلند ہو سکے۔