فیوڈل فینٹسی

تحریر : مشتاق احمد یوسفی


ہر شخص کے ذہن میں عیش و فراغت کا ایک نقشہ رہتا ہے جو دراصل چربہ ہوتا ہے اس ٹھاٹ باٹ کا جو دوسروں کے حصے میں آیا ہے۔ لیکن جو دکھ آدمی سہتا ہے، وہ تنہا اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بلاشرکت غیرے۔ بالکل نجی، بالکل انوکھا۔ ہڈیوں کو پگھلا دینے والی جس آگ سے وہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔ جیسا داڑھ کا درد مجھے ہو رہا ہے ویسا کسی اور کو نہ کبھی ہوا، نہ ہو گا۔ اس کے برعکس، ٹھاٹ باٹ کا بلْو پرنٹ ہمیشہ دوسروں سے چْرایا ہوا ہوتا ہے۔ بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔

 اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ، بگڑے رئیسوں کا تیہا اورٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِتروناپن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اور ندیدہ پن۔ سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انھی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑ پھوڑ کر مداری بن جاؤں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور ’’بچہ لّوگ‘‘سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تو میرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ جس پر میل خورا غلاف نہ چڑھا ہو اور پیٹنٹ لیدر کے پمپ شوز پہن کراسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔ سفید سلک کی اچکن جس میں بدری کے کام والے بٹن نرخرے تک لگے ہوں۔

 جیب میں گنگا جمنی کام کی پانوں کی ڈبیا۔ سر پر سفید کمخواب کی رام پوری ٹوپی۔ ترچھی، مگر ذرا شریفانہ زاویے سے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرے شریف ہی ہو کے رہ جائیں۔ چھوٹی بوٹی کی چکن کا سفید کرتا جو موسم کی رعایت سے عطرِ حنا یا خس میں بسا ہو۔ چوڑی دار پاجامے میں خوبرو دو شیزہ کے ہاتھ کا بْنا ہوا سفید ریشمی ازار بند۔ سفید نری کا سلیم شاہی جوتا۔ پیروں پر ڈالنے کے لئے اٹالین کمبل جو فٹن میں جتے ہوئے سفید گھوڑے کی دْم اور دْور مار بول و براز سے پاجامے کو محفوظ رکھے۔ فٹن کے پچھلے پائیدان پر ’’ھٹو! بچو!‘‘ کرتا اور اس پر لٹکنے کی کوشش کرنے والے بچّوں کو چابک مارتا ہوا سائیس، جس کی کمر پر زردوزی کے کام کی پیٹی اور ٹخنے سے گھٹنے تک خاکی نمدے کی نواری پٹیاں بندھی ہوں۔ بچہ اب سیانا ہو گیا تھا۔ بچپن رخصت ہو گیا، پر بچپنا نہیں گیا۔بچّہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محویت اور خود فراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منہمک بچّے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہو سکتا۔ کھلونا ٹوٹنے پر بچّے نے روتے روتے اچانک روشنی کی طرف دیکھا تھا تو آنسو میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے گا کہ ا کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔ 

یہی حال ان کھلونوں کا ہو تا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔ پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ہے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔